سوال:
مفتی صاحب ! میں شرکت کا ایک عقد کرنا چاہتا ہوں، میرا ایک دوست مجھے ایک لاکھ روپے دے رہا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ایک لاکھ روپے میرے اور پچاس ہزار آپ کے ہوں گے، جس سے آپ کاروبار کرلیں اورنفع و نقصان میں ہم نصف نصف کے شریک ہوں گے۔
تو کیا یہ شرکت جائز ہے؟ اس شرکت سے میں کتنا خرچ کرسکتا ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ شرکت کے معاملے میں فریقین باہمی رضامندی سے نفع کا کوئی بھی تناسب طے کرسکتے ہیں٬ لیکن نقصان کی صورت میں ہر فریق اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر ہی ذمہ دار ہوگا٬ لہذا مذکورہ صورت میں نقصان میں برابری کی شرط لگانا شرعا درست نہیں ہے٬ بلکہ ہر فریق اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (188/5)
"ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی