عنوان: نفع ونقصان کی برابری کی بنیاد پر کاروبار میں شرکت کرنا(7746-No)

سوال: مفتی صاحب ! میں شرکت کا ایک عقد کرنا چاہتا ہوں، میرا ایک دوست مجھے ایک لاکھ روپے دے رہا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ایک لاکھ روپے میرے اور پچاس ہزار آپ کے ہوں گے، جس سے آپ کاروبار کرلیں اورنفع و نقصان میں ہم نصف نصف کے شریک ہوں گے۔
تو کیا یہ شرکت جائز ہے؟ اس شرکت سے میں کتنا خرچ کرسکتا ہوں؟

جواب: واضح رہے کہ شرکت کے معاملے میں فریقین باہمی رضامندی سے نفع کا کوئی بھی تناسب طے کرسکتے ہیں٬ لیکن نقصان کی صورت میں ہر فریق اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر ہی ذمہ دار ہوگا٬ لہذا مذکورہ صورت میں نقصان میں برابری کی شرط لگانا شرعا درست نہیں ہے٬ بلکہ ہر فریق اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (188/5)
"ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 559 Jun 08, 2021
nafa nuqsan ki barabri ki bunyad par karobar mai shirkat karna, To participate in business on the basis of equality of profit and loss

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.