سوال:
مفتی صاحب! اگر کوئی شخص مونچھیں رکھنا چاہیے تو اس کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟ اگر جائز ہے کتنی بڑی رکھ سکتے ہیں اور کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ مونچھیں رکھنا جائز ہے، البتہ مونچھیں اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائیں، اور اتنی بڑی ہو جائیں کہ کھانے پینے کی اشیاء میں لگیں، شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اس سے کھانے پینے کی اشیاء حرام یا مکروہ نہیں ہوں گی۔
مونچھوں کے سلسلے میں درج ذیل احتیاط کرنی چاہئیں:
(1) بہتر یہ ہے کہ مونچھیں قینچی وغیرہ سے کاٹی جائیں، استرہ اور بلیڈ سے صاف کرنا بھی جائز ہے، البتہ خلافِ اولیٰ ہے۔
(2) چالیس دن سے زیادہ مونچھوں کو نہ چھوڑا جائے،حدیث میں ہے:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیس روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر : 599)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب إعفاء اللحی، رقم الحدیث: 5893، 875/2، ط: دار الفکر)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى»".
و فیہ ایضا: (باب تقلیم الأظفار، رقم الحدیث: 5892، 875/2، ط: دار الفکر)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خالفوا المشرکین ووفروا اللحی، وأحفوا الشوارب، وکان ابن عمر إذا حجَّ أو اعتمر قبض علی لحیتہ، فما فضل أخذہ۔
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 599)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، كِلَاهُمَا عَنْ جَعْفَرٍ، قَالَ: يَحْيَى، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: - قَالَ أَنَسٌ - «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.
مرقاۃ المفاتیح: (باب السواک، رقم الحدیث: 379)
قال الملا علي القاري: "قص الشارب: قال الحافظ ابن حجر:فیسن احفاوٴہ حتی تبدو حمرة الشفة العلیا".
العرف الشذی: (105/2)
"وأما الحد من الطرفین فلم تثبت،وتوخذ بقدر مالا توذی عند الأکل والشرب،ولعل عمل السلف أنہم کانوایقصرون السبالتین أیضاً،فان فی تذکرة الفاروق الأعظم ذکر أنہ کان یترک السبالتین واہتمام ذکر ترکہ السبالتین یدل علی أن غیرہ لا یترکہما".
رد المحتار: (باب الجنایات في الحج، 550/2، ط: دار الفکر)
"واختلف في المسنون في الشارب ہل ہو القص أو الحلق؟ والمذہب عند بعض المتأخرین من مشائخنا أنہ القص۔ قال في البدائع: وہو الصحیح۔۔۔۔وقال في الفتح: وتفسیر القص أن ینتقص عن الاطار، وہو بکسر الہمزة: ملتقی الجلدة واللحم من الشفة".
و فیہ ایضاً: (ص: 550، ط: سعید)
الثالث: قص الشارب: وهو الشعر النابت فوق الشفة العليا وحده: الشفة كل ما طال على الشفة العليا فهو شارب".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی