سوال:
ایک محلے میں مدرسہ ہے، جس میں مقامی بچے پڑھ کر اپنے گھر چلے جاتے ہیں، اس مدرسے میں دو استاد ہیں، دونوں استادوں کی تنخواہوں کے لئے اور دیگر بل وغیرہ کے لیے کوئی فنڈ موجود نہیں ہے، مدرسے کے ذمہ دار نے تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے لوگوں سے زکات لے کر تنخواہیں اور دیگر اخراجات ادا کرنے میں خرچ کرنا شروع کر دیے ہیں، اس تناظر میں چند سوال پوچھنے ہیں:
1) ایسے مدرسے میں زکوۃ اور فطرہ کی رقم دینا جائز ہے یا نہیں؟
2) زکوۃ کی رقم سے تنخواہ دینا اور مدرسے کے دیگر اخراجات میں خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
3) قربانی کے دنوں میں مدرسہ کے لئے قربانی کی کھالیں جمع کرکے اس سے حاصل شدہ رقم مذکورہ بالا اخراجات میں خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
براہ کرم ان سوالات کے جوابات عنایت فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ، فطرہ اور قربانی کی کھالوں کا مصرف مستحق زکوۃ افراد ہیں، محض طالب علم ہونا یا مدرسے میں قیام کا انتظام ہونا استحقاق کے لیے کافی نہیں ہے، اصل بنیاد طلباء کا مستحق ہونا ہے، لہٰذا غیر رہائشی طالب علم بھی مستحق ہوسکتا ہے، لہذا اگر مذکورہ مدرسہ میں مستحق طلباء زیر تعلیم ہوں، یعنی وہ صاحبِ نصاب نہ ہوں، اور مدرسہ کی انتظامیہ زکوۃ، فطرہ اور قربانی کی کھالوں کی رقم طلباء کی ضروریات مثلاً کھانے، پینے، کپڑے، وظیفے وغیرہ میں خرچ کرتی ہو، تو اس مدرسہ کی انتظامیہ فقیر طلباء کی طرف سے وکیل بن کر زکوٰۃ، فطرہ اور قربانی کی کھالیں وصول کرسکتی ہے، اور اگر مدرسہ کے اندر اس طرح کا یعنی فقیر طلباء پر خرچ کرنے کا نظام موجود نہ ہو، تو انتظامیہ کو زکوٰۃ، فطرہ اور قربانی کی کھالیں وصول کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے، اسی طرح طلباء کے لئے لی ہوئی رقم سے مدرسے کے دیگر اخراجات مثلاََ: تنخواہ، تعمیر اور بل ادا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
البتہ اس قسم کے غیر رہائشی مدرسہ میں اگر کوئی زکوۃ، فطرہ یا قربانی کی کھالوں کی رقم لگانا چاہے، تو اس کے تین طریقے ممکن ہیں، جو ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
(1) مدرسہ کا مہتمم، استاد، طالب علم یا کوئی اور شخص جو فقیر یعنی صاحب نصاب نہ ہو، اسے زکوۃ، فطرہ یا قربانی کی کھالوں کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ اپنی رضا و خوشی سے وہ رقم مدرسہ پر خرچ کر دے۔
(2) کوئی آدمی قرض لے کر اس مدرسہ کی ضروریات پر خرچ کردے، اور وہ قرض اتنا ہو جس سے وہ آدمی مستحق زکوۃ بن جائے، پھر زکوۃ، فطرہ یا قربانی کی کھالوں کی رقم اس قرض دار کو مالک بنا کر دے دی جائے۔
(3) مدرسہ کے بالغ طلباء، جو فقیر یعنی صاحب نصاب نہ ہوں، اگر وہ اپنی رضا و خوشی سے مدرسہ کی انتظامیہ کو زکوۃ، فطرہ اور قربانی کی کھالیں وصول کرنے کا وکیل بنا دیں، اور زکوۃ، فطرہ اور قربانی کی کھالیں وصول ہونے کے بعد اس بات کا اختیار دے دیں کہ وہ اپنی صوابدید پر مذکورہ مدرسہ میں جہاں چاہیں، اس رقم کو خرچ کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان تینوں صورتوں کے اختیار کرنے سے زکوۃ وغیرہ ادا ہوجائے گی، ورنہ مذکورہ مدرسہ میں براہ راست زکوٰۃ، فطرہ اور قربانی کی کھالوں کی رقم لگانے سے زکوۃ وغیرہ ادا نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (الباب السابع فی المصارف، 188/1، ط: رشیدیہ)
لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".
الدر المختار مع رد المحتار: (291/3، ط: زکریا)
ویُشْتَرَطُ أنْ یَکُوْنَ الصَّرْفُ تَمْلِیْکاً لَا ابَاحَةً ...
(قوله: تمليكا) فَلَا یَکْفِيْ فِیْہا الْاطْعَامُ الاّ بِطَرِیْقِ التَّمْلِیْکِ․
و فیہ ایضا: (باب المصرف، 304/3، ط: زکریا)
وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیوناً، أو کان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم لایخص کلا، أو لا یفضل بعد دینہ نصاب فلا یکرہ۔
البحر الرائق: (باب المصرف، 242/2، ط: سعید)
قولہ: والمدیون أطلقہ کالقدوري، وقیدہ في الکافي بأن لا یملک نصابا فاضلاً عن دینہ؛ لأنہ المراد بالغارم في الآیۃ، وہو في اللغۃ: من علیہ دین ولا یجد قضاء کما ذکرہ القُتَیبي … وفي الفتاویٰ الظہیریۃ: الدفع إلی من علیہ الدین أولی من الدفع إلی الفقیر۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی