سوال:
السلام علیکم، محترم مفتی صاحب ! زید نے اپنی زمین عمرو کو بطور شراکت کے دیدی، اب زید اپنی مقررہ شراکت والی رقم کے علاوہ بحیثیت مالک زمین ہونے کے علاقائی عرف کے مطابق ساتواں حصہ ( ہفتک) کا دعویدار اور حق دار ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ یعنی شریک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی زمین کی وجہ سے دوسرے شریک سے ساتوں حصہ لینا کیسا ہے؟
جواب: مزارعت کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ زمیندار اور کسان کے حصے پہلے سے متعین کردیے جائیں، اور فصل تیار ہونے کے بعد معاہدے کے مطابق تقسیم کی جائے، فریقین میں سے کسی ایک کا مقررہ حصے سے زائد کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (425/4، ط: مکتبہ رحمانیہ)
ثم المزارعۃ لصحتھا علی قول من یجیزھا شروط: احدھا کون الارض صالحۃ للزرع۔۔۔۔۔۔۔الخامس بیان نصیب من لابذر من قبلہ، لانہ یستحقہ عوضا بالشرط، فلابد ان یکون معلوما، و مالا یعلم لا یستحق شرطا بالعقد۔۔۔
و فیھا ایضا: (426/4، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و إذا صحت المزارعۃ فالخارج علی الشرط لصحت التزام، وان لم تخرج الارض شیئا فلا شیء للعامل۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی