سوال:
مفتی صاحب ! ایک مسئلہ درپیش ہے کہ وتر کی نماز کے اندر درمیان والی تشہد بیٹھنے کی بجائے امام صاحب سیدھا کھڑے ھوگئے، پیچھے سے مقتدی کے لقمہ دینے سے امام صاحب واپس بیٹھ گئے، تشہد کے بعد تیسری رکعت پوری کی سلام پھیردیا اور سجدہ سہو نہیں کیا۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا مقتدی کے لقمہ دینے سے امام صاحب کو واپس بیٹھنا چاہیے تھا یا نہیں؟ نیز نماز ہوئی یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے تھی یا نہیں؟
جواب: وتر کی نماز میں قعدہ اولیٰ واجب ہے، اگر امام سے سہوا قعدہ اولی چھوٹ جائے، اور وہ تیسری رکعت کے لئے بالکل سیدھا کھڑا ہوجائے، تو اسے واپس نہیں بیٹھنا چاہیے، لیکن اگر امام قعدہ اولیٰ کی طرف واپس لوٹ آیا ہے، تو راجح قول کے مطابق اس کی نماز فاسد نہیں ہوئی، البتہ اس پر سجدہ سہو لازم ہے۔
صورت مذکورہ میں اگر امام سجدہ سہو کرنا بھول جائے، اور نماز کا وقت باقی ہو، تو مذکورہ نماز کا اعادہ کرنا وقت کے اندر واجب ہے، اور اگر وقت گزر چکا ہو، تو نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے، البتہ وقت گزرنے کے بعد بھی اعادہ کرلینا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایہ: (166/1، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و من سہی عن القعدہ الاولی ثم تذکر، و ھو الی حالۃ القعود اقرب، عاد و قعد وتشھد، ولو کان الی القیام اقرب، لم یعد، لانہ کالقائم معنی ً، و یسجد لسھو، لانه ترک الواجب۔
الدر المختار: (82/2، ط: سعید)
سها عن القعود الأول من الفرض، ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة ،ثم تذكره عاد إليه، و تشهد، و لا سهو عليه في الأصح، ما لم يستقم قائماً، في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح، و إلا أي وإن استقام قائماً، لا يعود، لاشتغاله بفرض القيام، وسجد للسهو، لترك الواجب، فلو عاد إلى القعود، بعد ذلك، تفسد صلاته، لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي،وقيل: لا تفسد، لكنه يكون مسيئاً، و يسجد لتأخير الواجب، و هو الأشبه، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (ص: 440)
كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب۔
البحر الرائق: (163/2، ط: مکتبہ رشیدیہ)
اعلم ان الوجوب مقید بنا إذا کان الوقت صالحا، حتی ان من علیہ السھو فی الصلاۃ الصبح إذا لم یسجد طلعت الشمس بعد السلام الاول، سقط عنہ السجود۔
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144008200206
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی