سوال:
میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ مسجد کی حدود سے باہر اذان دینی چاہیے، مسجد کی حدود میں نہیں دینی چاہیے، اس کی کیا وجہ ہے؟ وضاحت فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ اذان اونچی آواز سے اور بلند جگہ پر کھڑے ہو کر دینی چاہیے، کیونکہ اس صورت میں اذان کی آواز دور لوگوں تک پہنچے گی اور جہاں تک اذان کی آواز پہنچے گی، وہاں کی تمام چیزیں مؤذن کے حق میں قیامت کے دن گواہی دیں گی، جبکہ مسجد کے اندر اذان دینے کی صورت میں اذان کا مقصد مکمل طور پر حاصل نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ بلند جگہ پر کھڑے ہوکر اذان دینا مستحب ہے، البتہ اگر مسجد میں اسپیکر وغیرہ کا ایسا انتظام موجود ہو، جس کے ذریعہ اذان بلند آواز سے دور تک پہنچ سکے، تو اس صورت میں مسجد کے اندر بھی اذان دے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (125/1، ط: دار طوق النجاۃ)
ان ابا سعید الخدری قال لہ انی اراک تحب الغنم والبادیۃ فاذا کنت فی غنمک او بادیتک فاذنت للصلوۃ فارفع صوتک بالندآء فانہ لا یسمع مدی صوت المؤذن جن ولا انس ولا شیٔ الاشھد لہ یوم القیمۃ قال ابوسعیدؓ سمعتہ من رسول اﷲ ﷺ۔
اعلاء السنن: (140/2)
فالذی یظھر ان المقصود ھو رفع الصوت والا علام التام اینما حصل فلا تعارض بینھما فان رفع الصوت قد حصل فی الموضعین لعدم المانع فیھما بخلاف صحن المسجد۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (704/1)
اما رفع الصوت فلیکون ابلغ فی اعلامہ واعظم لثوابہ کما ذکر حدیث ابی سعیدؓ اذا کنت فی غنمک الخ ولما رواہ الخمسۃ الا الترمذی عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال المؤذن یغفر لہ مدّ صوتہ ویشھد لہ کل رطب ویابس الخ۔
فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ: (65/6)
الاذان بمکبرات الصوت لتبلیغ من بعد وغیرہ لاحرج فیہ لمافی ذلک من المصلحۃ العامۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی