عنوان: کیا بیٹوں کی کمائی والد کی میراث میں تقسیم ہوگی؟(7886-No)

سوال: مفتی صاحب ! میں اورمیرے ایک بھائی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے 500000 پانچ لاکھ کمائے ہیں، اور بعد میں ہمارے والد نے300000 تین لاکھ ہمیں بطورشراکت دیے، حالانکہ یہ پانچ لاکھ کے حصول تک ھم دو بھائی علیحدہ کام کرتے تھے، والد صاحب اپنی بیماری کی وجہ سے یہ تین لاکھ کسی اجنبی کو بطور شراکت دے چکے تھے، یعنی علیحدہ کام کرتا تھا، اور میں اور میرا بھائی اپنا کام علیحدہ کرتا تھا، والد صاحب نے بعد میں اجنبی سے شراکت ختم کرکے یہ تین لاکھ ہم کو کاروبار میں شرکت کے لیے دیے۔
والد صاحب تو بیماری کی وجہ سے کام نہیں کرتے ہیں، کاروبار صرف میں اور میرا بھائی کرتا ہے، اگرچہ ہمارا رہن سہن اورخرچ ایک ہی ہے، ہم کل چار بھائی اور اورسات بہن ہیں، بھائیوں میں سے ہم دو کام کرتے ہیں اور دو چھوٹے ہیں، وہ پڑھتے ہیں۔
ابھی سوال یہ ہے کہ کل والد صاحب کی فوتگی کے بعد کیا میراث میں بہن بھائیوں میں یہ تین لاکھ تقسیم ہوں گے یا یہ ہمارے کمائے ہوئے پانچ لاکھ بھی میراث میں تقسیم ہوں گے؟
حالانکہ یہ پانچ لاکھ کی کمائی تک ہمیں نہ والد کی طرف سے کوئی رقم ملی ہے اورنہ بہن بھائیوں کی طرف سے کچھ ملا ہے، یہ ہم دو بھائیوں کی ذاتی کمائی ہے۔

جواب: اگر بیٹوں نے اپنی ذاتی کمائی ( یعنی والد صاحب کے کاروبار وغیرہ میں شریک نہیں تھے) سے یہ پانچ لاکھ روپے کمائے ہوں، تو یہ پیسے دونوں بیٹوں کی ملکیت شمار ہوں گے، اور والد صاحب کی میراث میں شامل نہیں ہوں گے۔
البتہ وہ تین لاکھ روپے جو بیٹوں نے شراکت کے لیے لیے ہیں، وہ والد صاحب کے انتقال کے بعد، والد صاحب کے تمام شرعی ورثاء میں میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (رقم المادۃ: 1398، 741/2)
"إذا عمل رجل في صنعۃ ہو وابنہ الذي في عیالہ فجمیع الکسب لذلک الرجل، وولدہ یعد معینا لہ، فیہ قیدان احترازیان کما تشعر عبارۃ المتن، الأول: أن یکون الابن في عیال الأب، الثاني: أن یعملا معا في صنعۃ واحدۃ إذ لو کان لکل منہما صنعۃ یعمل فیہا وحدہ فربحہ لہ".

تنقيح الفتاوى الحامدية: (17/2، دار المعرفۃ)
"في الفتاوى الخيرية: سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته؟ أجاب: هي للابن، تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه . وأما قول علمائنا "أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله" فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط: منها:
(١) اتحاد الصنعة
(٢) وعدم مال سابق لهما
(٣) وكون الابن في عيال أبيه، فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب، وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم " لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يصنع"، فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اه. ......
وأجاب أيضا عن سؤال آخر بقوله: إن ثبت كون ابنه وأخويه عائلة عليه، وأمرهم في جميع ما يفعلونه إليه، وهم معينون له فالمال كله له والقول قوله فيما لديه بيمينه، وليتق الله فالجزاء أمامه وبين يديه، وإن لم يكونوا بهذا الوصف بل كان كل مستقلا بنفسه واشتركوا في الأعمال فهو بين الأربعة سوية بلا إشكال، وإن كان ابنه فقط هو المعين والإخوة الثلاثة بأنفسهم مستقلين فهو بينهم أثلاثاً بيقين، والحكم دائر مع علته بإجماع أهل الدين الحاملين لحكمته.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 932 Jun 27, 2021
kia betion ki kamai waalid ki meeras mai taqseem hogi?, Will the sons' earnings be divided into the father's inheritance?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.