سوال:
مفتی صاحب ! ہمارے پاس بیس سال سے کچھ سونا رکھا ہوا ہے، جس کی کبھی مکمل زکوۃ ادا نہیں کری، کسی سال کچھ پیسے ادا کردیئے اور کسی سال کچھ بھی ادا نہیں کیا، اور ہمارے پاس اس کا حساب بھی نہیں لکھا ہوا ہے کہ کس سال کتنی زکوۃ دی ہے۔
اب ہم ان تمام سالوں کی زکوۃ کس طرح ادا کریں؟ نیز پچھلے سالوں میں سونا سستا تھا اور اب مہنگا ہوگیا ہے، تو زکوۃ پچھلے سونے کی قیمت سے ادا کرنی ہوگی یا موجودہ قیمت سے ادا کرنی ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ صاحب نصاب بن جانے کے بعد اگر زکوة ادا نہیں کی، تو گزشتہ سالوں کی زکوة بھی ادا کرنا واجب ہے، اور سونے کی گزشتہ سالوں کی زکوة موجودہ سال کی قیمت کے اعتبار سے ادا کی جائے گی۔
اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے ایک سال کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جائے گا، پھر پہلی زکوۃ کی ادائیگی کے بعد جو رقم بچے اور وہ نصاب تک پہنچے، تو دوسرے سال اس مال کی زکوٰۃ نکالی جائے گی، اسی طرح دوسرے سال کی زکوة منہا کرنے کے بعد اگر بقایا رقم نصاب تک پہنچے، تو تیسرے سال اس مال کی زکوة ادا کی جائے گی، اسی طرح جتنے سالوں کی زکوة ادا نہیں کی، ان کا حساب اسی طریقے کے مطابق کیا جائے گا۔مثلاً زیور کی مالیت 95000 روپے ہے، اور ایک سال کے بدلے اس کا ڈھائی فیصد یعنی 2375 روپے زکاۃ دی تو اگلے سال کی زکاۃ نکالتے وقت اس کو منہا کرکے بقیہ 92625 روپے کا ڈھائی فیصد زکوۃ میں ادا کیا جائے گا، اگر چند سالوں کی زکاۃ نکالنے کے بعد زیور نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) سے کم رہ جائے تو پھر اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔
اس تفصیل کے مطابق صورت مسئولہ میں اگر آپ کے پاس اتنا سونا تھا کہ اس کی مالیت خود یا دوسرے اموال زکوۃ کے ساتھ مل کر اس کی مالیت زکوٰۃ کے نصاب کے برابر تھی تو مذکورہ بالا طریقہ پر سونے کی موجودہ قیمت کے حساب سے اس کی زکوٰۃ نکالی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
حاشیۃ الطحطاوی: (716/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ويتراخى وجوب الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم لأن ما دون الخمس من النصاب عفو لا زكاة فيه وكذا فيما زاد بحسابه۔
قوله: "ففيها درهم" هذا إنما يظهر إذا كان الماضي عاما واحدا۔
درر الحکام شرح غرر الاحکام: (181/1، ط: دار إحياء الكتب العربية)
والخلاف في زكاة المال فتعتبر القيمة وقت الأداء في زكاة المال على قولهما وهو الأظهر وقال أبو حنيفة يوم الوجوب كما في البرهان وقال الكمال والخلاف مبني على أن الواجب عندهما جزء من العين وله ولاية منعها إلى القيمة فيعتبر يوم المنع كما في منع رد الوديعة وعنده، الواجب أحدهما ابتداء ولذا يجبر المصدق على قبولها اه.
بدائع الصنائع: (7/2، ط: دار الكتب العلمية)
وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی