سوال:
مفتی صاحب ! میرے اپنے گھر میں قربانی ہوتی ہے، اور میرے گھر کا ایک حصہ میرے رشتہ دار کے گھر میں ہوتا ہے، وہاں حصہ ناپ تول کر نہیں، بلکہ ایسے ہی اندازے سے دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
اگر ہم انہیں کہہ دیں کہ ہمیں گوشت کی ضرورت نہیں ہے، بس آپ ناپے نہیں، ایسے ہی تھوڑا سا دے دیں، تو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟
جواب: مذکورہ صورت میں اگر قربانی کے گوشت کو اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ہر ایک حصے میں گوشت کے ساتھ سری٬ پایہ یا مغز وغیرہ رکھ دیا جائے٬ تو ایسی صورت میں سارے حصوں کا وزن میں برابر ہونا ضروری نہیں ہے٬ بلکہ اندازے سے تقسیم کرنا بھی جائز ہے۔
البتہ اگر محض گوشت کو سات حصوں میں تقسیم کیا جائے٬ تو ایسی صورت میں تقسیم کے وقت ہر ایک کے حصے کا گوشت وزن میں برابر ہونا ضروری ہے، محض اندازے سے تقسیم کرنا شرعا درست نہیں ہوگا، اگرچہ تمام شرکاء کمی بیشی پر راضی ہی کیوں نہ ہوں٬ تاہم تقسیم ہوجانے کے بعد اگر کوئی شریک اپنا حصہ کسی کو ہدیہ(gift) کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الأضحیۃ، 306/5)
"وإن اقتسموا مجازفۃً یجوز إذا کان أخذ کل واحد شیئاً من الأکارع أو الرأس أو الجلد "
الدر المختار مع رد المحتار: (385/9)
ویقسم اللحم وزناً لا جزافاً
...... قولہ: (لا جزافاً) لأن القسمۃ فیہا معنی المبادلۃ، قال فی البدائع: أما عدم جواز القسمۃ مجازفۃ ، فلأن فیہا معنی التملیک، واللحم من أموال الربا، فلا یجوز تملیکہ مجازفۃ ۔
بدائع الصنائع: (کتاب التضحیۃ، 101/4)
قال ہشام : سألت أبا یوسف عن البقرۃ إذا ذبحہا سبعۃ فی الأضحیۃ أیقسمون لحمہا جزافاً أو وزناً؟ قال: بل وزناً ۔۔۔۔۔۔۔ أما عدم جواز القسمۃ مجازفۃ فلأن فیہا معنی التملیک، واللحم من الأموال الربویۃ، فلا یجوز تملیکہ مجازفۃ کسائر الأموال الربویۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی