سوال:
میں نے ایک جگہ حدیث میں پڑھا تھا کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز کی پہلی رکعت میں سورہ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورہ دھر پڑھا کرتے تھے، کیا یہ بات درست ہے اور اگر درست ہے، تو کیا ہر جمعہ کی نمازِ فجر میں یہ سورتیں پڑھنی چاہیے؟
جواب: حضور اکرم ﷺ سے جمعہ کے دن فجر کی نماز کی پہلی رکعت میں "سورہ الم سجدہ" اور دوسری رکعت میں "سورہ دھر" کی تلاوت کرنا ثابت ہے، البتہ چونکہ آپ ﷺ جمعہ کی نمازِ فجر میں ان سورتوں کی تلاوت ہمیشہ نہیں فرماتے تھے، اسی وجہ سے فقہاء کرام نے ان سورتوں کو جمعہ کی نماز فجر میں ہمیشہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ ہمیشہ ان سورتوں کو پڑھنے کی صورت میں دیگر سورتوں سے اعراض لازم آئے گا، لیکن چونکہ آپ ﷺ سے اس کا ثبوت موجود ہے، لہذا ائمہ مساجد کو کبھی کبھار جمعہ کی نماز فجر میں ان سورتوں کی تلاوت کرلینی چاہیے، بالکل ترک بھی نہیں کرنا چاہیے، تاکہ آپ ﷺ کی یہ سنت زندہ رہ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (282/1، ط: المکتبۃ العصریۃ)
عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقرأ في صلاة الفجر يوم الجمعة: تنزيل السجدة، وهل أتى على الإنسان حين من الدهر "۔
رد المحتار: (544/1، ط: دار الفکر)
ھذا، وقید الطحاوی والاسبیجابی الکراھۃ بما اذا رأی ذلک حتماً لا یجوز غیرہ أما لو قراء للتیسیر علیہ أو تبرکاً بقراءتہ علیہ الصلاۃ والسلام فلا کراھۃ لکن بشرط أن یقرأ غیرھا أحیانا لئلا یظن الجاھل أن غیرھا لا یجوز واعترضہ فی الفتح بأنہ لا تحریر فیہ لأن الکلام فی المداومۃ اھ۔ وأقول: حاصل معنی کلام ھذین الشیخین بیان وجہ الکراھۃ فی المداومۃ وھو أنہ إن رأی ذلک حتماً یکرہ من حیث تغییر المشروع والا یکرہ من حیث ایہام الجاھل وبھذا الحمل یتاید أیضا کلام الفتح السابق ویندفع اعتراضہ اللاحق فتدبر۔
الفتاوی الھندیۃ: (78/1، ط: دار الفکر)
ویکرہ أن یوقت شیئاً من القرآن لشیٔ من الصلوات قال الطحاوی والاسبیجابی ھذا اذا رآہ حتماً واجباً بحیث لا یجوز غیرہ أو رأی قراء ۃ غیرہ مکروھۃ وأما اذا قرأ لاجل الیسر علیہ أو تبرکاً بقراء تہ ﷺ فلا کراھیۃ فی ذلک ولکن یشترط أن یقرأ غیرہ أحیاناً لئلا یظن الجاھل أن غیرہ لا یجوز ھکذا فی التبیین۔
نجم الفتاوی: (422/2)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی