سوال:
قرآن مجید میں مذکور ہے کہ "پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں" جبکہ بسا اوقات ہمیں ایسا کیوں دکھتا ہے کہ ایک شریک حیات نیک ہوتا ہے، جبکہ دوسرا بدکار ہوتا ہے؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔
جواب: اس آیت کریمہ میں ایک عام ضابطہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی طبیعتوں میں طبعی طور پر یہ جوڑ رکھا ہے کہ بدکار عورتیں بدکار مردوں کی طرف رغبت اور میلان رکھتی ہیں، جبکہ بدکار مرد بدکار عورتوں کو پسند کرتے ہیں۔چونکہ یہ لوگ بدکاری کو گناہ نہیں سمجھتے اور اس سے نہیں بچتے، اس لئے یہ لوگ ایسے شریک حیات کو قبول کرلیتے ہیں، جبکہ پاکیزہ مرد اور پاکیزہ عورتوں کی طبیعت پاکیزہ مرد اور پاکیزہ عورتوں کی طرف ہی مائل ہوتی ہے، وہ کبھی بھی کسی بدکار عورت یا مرد کو اپنا شریک حیات نہیں چنتے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہاں آیت میں "الخبیثات" سے مراد "بری بات" ہے، اور "الطیبات" سے مراد "بھلی بات" ہے، آیت کا مطلب یہ ہے: بری بات برے لوگوں کے لئے ہے، اور بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں۔
یہ آیت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے، آیت کا مطلب ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جو ہر طرح سے طیّب اور پاک ہیں، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو۔ خبیثات عورتیں تو خبیث مردوں کے لئے چنی جاتی ہیں، یہ لوگ ان تمام باتوں اور تہمتوں سے پاک ہیں، جبکہ منافقین خود ان باتوں کے لائق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النور، الآیۃ: 26)
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌo
تفسیر ابن کثیر: (296/3، ط: قدیمی کتب خانہ)
قال ابن عباس : الخبيثات من القول للخبيثين من الرجال والخبيثون من الرجال للخبيثات من القول ، و الطيبات من القول للطیبین من الرجال و الطيبون من الرجال للطيبات من القول
تفسیر روح المعانی: (447/18)
و في الآیۃ علی جمیع الأقوال تغليب أي أولئك منزهون مما يقوله أهل الإفك في حقهم من الأكاذيب الباطلة .
معارف القرآن: (383/6، ط: ادارۃ المعارف کراتشي)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی