سوال:
مفتی صاحب ! رمضان کے موقع پر مساجد میں مختلف علاقوں سے مدرسے کے سفیر یا دیگر دینی جماعتیں آکر نماز کے بعد مدرسہ کے لیے چندے کا سوال کرتے ہیں، اس طرح مسجد میں مدرسہ یا کسی دینی امور کے لیے چندہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: مختلف مواقع (جیسے غزوہ تبوک) پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خود مسجد میں امداد جمع کرنا منقول ہے، لہذا مسجد، مدرسہ یا کسی اور دینی مقصد کے لیے اگر چندہ کی ضرورت ہو، تو مسجد میں چندہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل واقع نہ ہو، کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مسجد میں شور و شغب نہ کیا جائے، چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر کسی کو عار نہ دلائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 3700، ط: دار الحدیث القاہرۃ)
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَبَّابٍ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحُثُّ عَلَى جَيْشِ الْعُسْرَةِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ مِائَةُ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ مِائَتَا بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا، وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ ثَلَاثُ مِائَةِ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا، وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ.
الدر المختار مع رد المحتار: (164/2، ط: دار الفکر)
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.
(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اه ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اه. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".
امداد السائلین: (187/6، ط: ادارۃ المعارف)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی