سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے اپنی جائیداد زندگی میں ہی بچوں میں تقسیم کر کے ان کو قبضہ دے کر مالک بنادیا تھا، لیکن سرکاری کاغذات میں جائیداد اسی کے نام پر تھی، کیا اب اس شخص کے انتقال کے بعد جائیداد از سرنو تقسیم ہوگی یا جس بچے کو جس حصہ کا قبضہ دے کر مالک بنادیا تھا، وہ اسی بچے کی ملکیت شمار ہوگی؟
جواب: اگر مذکورہ شخص نے اپنی جائیداد بچوں میں تقسیم کر کے ان کو قبضہ دے کر مالک بنادیا تھا، تو یہ ہبہ صحیح ہوگیا، جس بچے کو جو حصہ دیا تھا، وہ بچہ اس حصہ کا مالک ہوگا، اس کے علاوہ وراثت میں جو اس کا حصہ بنتا ہوگا، اس حصے کا بھی وہ شرعی حقدار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11)
یوصیکم الله في اولادكم....الخ
الفتاوی الھندیۃ: (377/4، ط: دار الفکر)
ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك، والإذن تارة يثبت نصا وصريحا وتارة يثبت دلالة۔
و فیھا ایضاً: (الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ و ما لا یجوز، 378/4، ط: رشیدیہ)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی