سوال:
السلام علیکم، حضرت مفتی صاحب ! ہمارا دبئی میں سونے کا کاروبار ہے، ہمارے کچھ گاہک سونے کی قیمت سے زیادہ پیسے رکھوا کر سونا لے جاتے ہیں اور مارکیٹ میں پہنچ کر ہم سے رابطہ کر کے ریٹ طے کرتے ہیں، تب ہم ان کا فائنل حساب بنا دیتے ہیں اور وہ سونا آگے فروخت کر دیتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے بعض گاہک مارکیٹ میں جا کر ہم سے رابطہ کرنے سے پہلے ہی سونا آگے فروخت کر دیتے ہیں اور بعد میں ہم سے رابطہ کر کے اپنی خریداری مکمل کرتے ہیں۔
کیا ہمارے لیے مذکورہ بالا دونوں صورتیں اختیار کرنے کی شرعاً گنجائش بنتی ہے، اگر نہیں تو برائے کرم اس کے شرعی طریقہ کی طرف راہنمائی فرما دیجیے۔
جواب: مذکورہ صورت میں گاہک کا اپنے کسٹمر کو سونا دکھانے کیلئے لے جانا٬ اور زر ضمانت کے طور پر رقم جمع کرانا، پھر کسٹمر ملنے پر آپ سے ریٹ وغیرہ طے کرکے خرید و فروخت کا حتمی معاملہ کرنا شرعا درست ہے٬ البتہ بعض گاہکوں کا آپ کے ساتھ سودے کو حتمی کئے بغیر اس سونے کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے٬ کیونکہ یہ سونا ان کی ملکیت میں نہیں ہے٬ اور جو چیز انسان کی ملکیت میں نہ ہو٬ اسے اپنے لئے آگے فروخت کرنا ناجائز ہے٬ ایسا سودا شرعا کالعدم شمار ہوتا ہے٬ جس سے معاملہ منعقد (Execute) ہی نہیں ہوتا٬ اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال نہیں ہے۔
لہذا اس کے پاس موجود سونا بدستور آپ کا ہے٬ اور آپ کا ان کے ساتھ خرید وفروخت کا حتمی سودا کرنا شرعا درست ہے۔
مزید یہ کہ حتمی سودے سے پہلے آپ کا سونا گاہک کے پاس امانت ہوگا٬ اگر اس کی غفلت اور کوتاہی کے بغیر کوئی نقصان ہوجائے٬ تو وہ اس کا ذمہ دار نہ ہوگا٬ اور غفلت و کوتاہی کی وجہ سے نقصان ہونے کی صورت میں آپ اس سے حقیقی نقصان کے بقدر تلافی کرواسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبی داود: (رقم الحدیث: 3503)
"عن حکیم بن حزام رضي اللّٰہ عنہ قال: یا رسول اللّٰہ! یأتیني الرجل فیرید مني البیع لیس عندي، أفأبتاعہ لہ من السوق؟ فقال: ’’لا تبع ما لیس عندک‘‘۔ أخرجہ أبوداؤد وسکت عنہ"
البحر الرائق: (260/3)
"اما شرائط الصحۃ …و منھا ان یکون المبیع معلوماً والثمن معلوماً علما یمنع من المنازعۃ فا لمجھول جھالۃ مفضیۃ الیھا غیرصحیح"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی