سوال:
مفتی صاحب ! اگر کوئی غریب 10 ذی الحجہ سے پہلے کوئی جانور خریدے اور پھر کسی مجبوری سے بیچ دے تو یہ درست ہوگا یا نہیں؟ نیز کیا صرف خریدنے سے قربانی واجب ہوجائے گا یا ایام قربانی میں خریدنے سے قربانی واجب ہوجائے گی؟
جواب: اس بارے میں عام عربی کتبِ فقہ و فتاوی میں صرف اتنی بات منقول ہے کہ قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے غریب شخص پر قربانی واجب ہوجاتی ہے، اس میں ایام نحر میں خریدنے کی کوئی قید منقول نہیں ہے۔
چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
وأما الذي يجب على الفقير دون الغني فالمشتري للأضحية إذا كان المشتري فقيرا بأن اشترى فقير شاة ينوي أن يضحي بها
(ج:5،ص:62،ط:دار الکتب العلمیۃ)
اور البحر الرائق میں ہے:
إن كان المشتري غنيا لا تصير واجبة باتفاق الروايات فله أن يبيعها ويشتري غيرها، وإن كان فقيرا ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده في ظاهر الرواية تصير واجبة بنفس الشراء
(ج:8،ص:199،ط:دار الکتاب الاسلامی)
اسی طرح فتاوی ھندیہ اور فتاوی بزازیہ وغیرہ میں بھی مطلقا غریب شخص کے قربانی کے لئے جانور خریدنے کو قربانی واجب ہونے کا سبب بتلایا گیا ہے۔
البتہ علامہ شامی رحمہ اللہ رد المحتار میں فتاوی تاتارخانیۃ کی عبارت "بقوله شراها لها أيام النحر" نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "وظاهره أنه لو شراها لها قبلها لا تجب" یعنی فتاوی تاتارخانیہ کی عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے لئے ایام نحر سے پہلے جانور خرید لے، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔
لیکن علامہ شامی رحمہ اللہ اس بارے میں خود ہی آگے فرماتے ہیں "ولم أره صريحا فليراجع" یعنی اس بارے میں انہیں بھی کوئی صراحت نہیں ملی ہے۔
نیز اکابر حضرات کے اردو فتاوی بھی اس بارے میں مختلف نظر آتے ہیں:
چنانچہ فتاوی محمودیہ میں ہے:
اگر وہ قربانی کے دنوں میں قربانی کی نیت سے جانور خریدے گا، تب اس کے ذمہ قربانی واجب ہوگی۔
(ج:17،ص:315،ط:ادارۃ الفاروق)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
البتہ غریب (کہ جس پر قربانی واجب نہیں) بہ نیت قربانی ایام نحر میں قربانی کا جانور خریدے، تو اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے، اس کو نہ بیچ سکتا ہے، نہ بدل سکتا ہے۔ در مختار میں ہے: (وفقیر شراھا لھا) لوجوبھا علیہ بذلک، شامی میں ہے: لان شرائہ لھا یجری مجری الایجاب (شامی:ج:۵،ص:۲۸۰،کتاب الا ضحیۃ)
شامی کی عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایام نحر سے قبل جانور قربانی کی نیت سے خریدا ہو، تو اس جانور کی قربانی لازم نہ ہوگی، بدل سکتا ہے اور فروخت بھی کرسکتا ہے۔۔۔۔۔
فتاویٰ دارالعلوم! عزیز الفتاویٰ میں یہی ہے ! اگر فقیر ایام نحر میں قربانی کی نیت سے کوئی جانور خریدے، تو وہ متعین ہوجاتا ہے قربانی کے لئے، لیکن اگر ایام نحر میں نہ خریدا، بلکہ ایام نحر سے پہلے خریدا، تو دونوں (امیر و غریب) کو بدلنا جائز ہے۔ (ج:۵،ص:۶۵)
(ج:10،ص:27،ط:دار الاشاعت)
جبکہ مفتی رشید احمد رحمہ اللہ احسن الفتاوی میں تاتارخانیہ کی عبارت کی توجیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تاتارخانیہ میں "ایام النحر" سے "قبل مضی ایام النحر" مراد ہے، یہ قید احترازی نہیں، بلکہ قید واقعی ہے، اس سے قبل " لو ترکت التضحیۃ ومضت ایامہا" میں "ایام النحر" کا ذکر تھا، اسی سیاق میں یہاں بھی آگیا، احتراز مقصود نہیں۔۔۔۔۔۔الخ
(ج:7،ص:529،ط:سعید)
خلاصہ کلام:
خلاصہ یہ ہے کہ عام فقہی عبارات کے اطلاق کو مد نظر رکھتے ہوئے معلوم یہ ہوتا ہے کہ قربانی کے لئے جانور خریدنے کی وجہ سے غریب پر وجوبِ قربانی کا حکم لگایا جائے، چاہے ایام نحر سے پہلے خریدے اور اسی میں احتیاط ہے، چنانچہ مفتی رشید احمد رحمہ اللہ مذکورہ جواب کے اخیر میں فرماتے ہیں: والاول احوط واشھر واوفق لقاعدۃ "الاحتیاط فی باب العبادات واجب"۔
یعنی پہلا والا قول (غریب پر نفسِ شراء سے قربانی واجب ہوگی) احوط یعنی زیادہ احتیاط پر مبنی اور زیادہ مشہور ہے اور اس قاعدہ کے زیادہ موافق ہے کہ "عبادات کے باب میں احتیاط پر عمل کرنا واجب ہے۔"
لہذا اگر کوئی غریب قربانی کی نیت سے جانور خریدے، چاہے ایام نحر سے پہلے خریدے یا ایام نحر میں خریدے، تو محض قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہوجائے گی، اور اس کے لئے اس جانور کو فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (321/6، ط: دار الفکر)
(وفقير) عطف عليه (شراها لها) لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها
(قوله لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء وهذا ظاهر الرواية لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب وهو النذر بالتضحية عرفا كما في البدائع. ووقع في التتارخانية التعبير بقوله شراها لها أيام النحر، وظاهره أنه لو شراها لها قبلها لا تجب ولم أره صريحا فليراجع
الفتاوی الھندیۃ: (291/5، ط: دار الفکر)
وأما الذي يجب على الفقير دون الغني فالمشترى للأضحية إذا كان المشتري فقيرا
الفتاوی البزازیۃ: (کتاب الاضحیۃ، ص: 158، ط: دار الفکر)
وان فقیرا۔۔۔۔۔۔وذکر فی ظاہر الروایۃ عنا یجب بالشراء بہا۔
کتاب النوازل: (502/14، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی