سوال:
اس بات کی تصدیق فرمادیں: حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: جو شخص شب قدر میں سورۃ القدر پڑھتا ہے، اللہ اسے ہر بلا سے محفوظ فرما دیتا ہے، اور ستر ہزار فرشتے اس کے لیے جنت کی دعا کرتے ہیں، اور جو کوئی شخص نماز جمعہ سے پہلے تین مرتبہ سورۃ القدر پڑھتا ہے تو اللہ عزوجل اس روز کے تمام نماز پڑھنے والوں کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ (نزھۃ المجالس، ج1، ص223)
جواب: : سوال میں ذکرکردہ روایت’’شدید ضعیف‘‘ ہے،لہذا اس روایت کو بیان کرنا اور اسکی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنادرست نہیں ہے۔
اس روایت کا ترجمہ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ :
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی شب قدر میں سوره قدر سات مرتبہ پڑھتا ہے، الله تعالی اسے ہر بلا سے محفوظ فرما دیتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کے لیے جنت کی دعا کرتے ہیں، اور جو کوئی جمعہ کی نماز سے پہلے اسے تین مرتبہ پڑھے گا، اللہ تعالی اس کےلیے اس دن جمعے کی نماز پڑھنے والوں کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھے گا۔ (نزھۃ المجالس:1/170، ط: المطبعه الكاستلية)(۱)
تخریج الحدیث:
۱۔اس روایت کو علامہ عبدالرحمن الصفوری (م 894ھ) نے’’ نزھۃ المجالس‘‘(1/170، ط: المطبعه الكاستلية)میں ذکر کیا ہے۔
۲۔ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ (م 911ھ)نے ’’زیادات علی الموضوعات‘‘(1/136)،رقم الحدیث:154،ط:مکتبةالمعارف) میں ایک طویل روایت کے ضمن میں "جزء أبی منصور محمد بن عيسى بن عبد العزيز بن يزيد بن الصباح" (م 431ھ )کےحوالے سے ذکرکیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ ابن عراق الكنانی (م963ھ)نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: علامہ سیوطی ؒ (م 911ھ)نے اس روایت کی علت بیان نہیں کی اور اس روایت کی سند میں "محمدبن احمد بن ابراہیم ابوالطیب" ایک راوی ہے، اگر یہ وہی بغدادی، شافعی ہیں، جن کا تذکرہ لسان المیزان اور میزان الاعتدال میں ہے تو یہ مغرب چلے گئے تھے اور معتزلی بن گئے تھے، وہاں سے جلاوطن کیے گئے اور اگر یہ ابوالطیب کوئی اور راوی ہیں تو میں اس کو نہیں جانتا۔ا ان (ابوالطیب )سے نقل کرنے والے روای "محمد بن حمید الخزار" ہے، جو کہ ضعیف ہے، ان (محمد بن حمید الخزار) سے نقل کرنے والے راوی "الحسن بن علی بن زكريا بن صالح أبو سعيد العدوي"ہیں، جو کہ کذاب ہے۔اور ان سے نقل کرنے والے "محمد بن صدقة" ہے، جو مجہول ہے۔(۳)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ مذکورہ بالا روایت کے روات ضعیف اور مجہول ہیں اور محققین اہلِ علم کے نزدیک علامہ عبد الرحمن صفوری رحمہ اللہ کی کتاب "نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس" میں بہت سی من گھڑت و غیرمعتبر اور اسرائیلی روایات ہیں، اس لیے جب تک دیگر محدثین سے اس کتاب میں ذکر کردہ روایات کی تائید نہ مل جائے، محض اس کتاب پر اعتماد کرکے ان روایات کو بیان کرنا درست نہیں ہے(۴)،اس لیے مذکورہ بالاروایت کو شدید ضعیف ہونے کی وجہ سے بیان کرنا اور اس کو آگے پھیلانا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)نزهة المجالس لعلامۃ عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوري: (1/170، ط: المطبعه الكاستلية)
عن علي رضي الله عنه من قرأ إنا أنزلناه في ليلة القدر بعد العشاء سبع مرات عافاه الله من كل بلاء ودعا له سبعون ألف ملك بالجنة ومن قرأها يوم الجمعة قبل الصلاة ثلاث مرات كتب الله له من الحسنات بعدد من صلى الجمعة في ذلك اليوم
و هذا الحديث قدذكره السيوطي في ’’الزیادات علی الموضوعات ‘‘(1/136)،(154) عن علي و ساقه بطوله ۔
(2)تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة: (1/303، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وقد ذكر ابن عراق الكناني هذآ الحديث عن علي و ساق بطوله ثم قال: لم يبين علته(السيوطي)، وفيه محمد بن أحمد بن إبراهيم أبو الطيب المخرمي، فإن يكن هو البغدادي الشافعي المذكور في الميزان ولسانه بأنه نزل المغرب وأظهر الاعتزال فنفوه فذاك، وإلا فلا أعرفه، عن محمد بن حميد الخزاز ضعيف، عن الحسن بن علي أبي سعيد العدوي كذاب، عن محمد بن صدقة لا يعرف والله أعلم.
(3)مفاكهة الخلان في حوادث الزمان لابن طولون الدمشقي: (1/131، ط: دار الكتب العلمية)
وقال الشهاب الحمصي في ذيله: وفي يوم الخميس خامس عشر جمادى الأولى منها، منعت زين الدين الصفوري، المحدث من القراءة بالجامع الأموي، ومن غيره، وأمرت بشيل كرسيه من الجامع الأموي، وسببه أنه جمع كتاباً سماه: نزهة المجالس وذكر في أحاديث موضوعة على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم أحضر الكتاب المذكور وذكر أنه تاب ورجع عن الأحاديث الموضوعة فيه، وأنه لا يعود لذلك، والله يعلم المفسد من المصلح.
و في تحذير المسلمين من الأحاديث الموضوعة: (ص: 48، ط: دار الکتب العلمیہ)
و من الکتب المشحونة بالموضوعات والخرافات الإسرائيلية كتاب" نزهة المجالس و منتخب والنفائس" للصفوري فإن مؤلفه رحمه الله قد شحنه بالموضوعات مما لا يدخل تحت حصر، و فيه حكايات لا أصل لها.
كذا في الحاوي للفتاوي للإمام سيوطي: (2/45، ط: دار الکتب العلمیہ)
كذا في الوسيط في علوم و مصطلح الحديث لأبي شُهبة: (ص: 355، ط: دار الفكر العربي)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی