سوال:
بحمدللہ! میں دورہ حدیث میں زیر تعلیم ہوں اور گھر والے فراغت کے بعد سال لگانے کے لیے کہہ رہے ہیں اور بندہ کی بھی خواہش ہے کہ دین کی خدمت اور اشاعت اسلام کی غرض سے سال لگاؤں، مگر سے بہت لوگ کہتے ہیں کہ تبلیغ میں سال لگانا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے، لہذا آپ حضرات سے معلوم یہ کرنا ہے کہ تبلیغی جماعت میں سال لگانا کیسا ہے؟ برائے مہربانی مدلل و تسلی بخش جواب دیکر شکریہ کا موقع دیں۔
جواب: دین کی دعوت دینا اور اس کی تبلیغ کرنا "اُمُّ الْحَسَنَات" یعنی نیکیوں کی ماں ہے، قرآن کریم اور حدیث شریف میں کئی جگہ اس کی تاکید آئی ہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(سورة آل عمران،الآیة:104)
ترجمہ: "اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے، جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں"۔
نیز ایک حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا:"فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا، خير لك من أن يكون لك حمر النعم" "خدا کی قسم! اگر تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دی تو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے"۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:3009)
تبلیغی حضرات کا تبلیغ میں سہ روزہ، چلہ یا سال وغیرہ لگانے کا مقصد لوگوں کو دین سکھانا، رفتہ رفتہ دین سے ان کا تعلق پیدا کرنا یا مزید تعلق بڑھانا، انہیں دین پر چلنے کا عادی بنانا اور دوسروں تک دین کی دعوت پہنچانے کا اسلوب سکھانا ہے۔
نیز ہر مسلمان پر ضرورت کے بقدر دین سیکھنا فرض ہے، چاہے کسی بھی دینی شعبہ سے سیکھے، لہذا اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کے پاس تبلیغ کے سوا دین سیکھنے کا کوئی موقع اور ذریعہ نہ ہو تو اس کے لئے تبلیغ کے شعبہ سے دین سیکھنا فرض ہوجاتا ہے۔
نیز مشاہدہ اور تجربہ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ تبلیغ میں وقت لگانا فائدہ سے خالی نہیں، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں، جنہیں تبلیغ میں وقت لگانے کی وجہ سے تہجد اور دیگر نوافل وغیرہ عبادات کی توفیق نصیب ہوئی یا ان کے دعوت دینے کی وجہ سے بہت سے لوگ دیندار بن گئے اور راہ راست پر آگئے اور کتنے ہی لوگوں نے بڑے بڑے گناہوں سے توبہ کی۔
اسی بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ایک جگہ لکھتے ہیں:"تجربہ یہ ہے کہ اپنے ماحول میں رہتے ہوئے آدمی میں دِین کی فکر پیدا نہیں ہوتی، بیسیوں فرائض کا تارک رہتا ہے اور بیسیوں گناہوں میں مبتلا رہتا ہے، عمریں گزر جاتی ہیں مگر کلمہ، نماز بھی صحیح کرنے کی فکر نہیں ہوتی۔ تبلیغ میں نکل کر احساس ہوتا ہے کہ میں نے کتنی عمر غفلت اور بے قدری کی نذر کردی اور اپنی کتنی قیمتی عمر ضائع کردی۔ اس لئے تبلیغ میں نکلنا بہت ضروری ہے، اور جب تک آدمی اس راستے میں نکل نہ جائے اس کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔"(آپ کے مسائل اور ان کا حل،ج:8،ص:191،ط:دار مکتبہ لدھیانوی)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تبلیغ میں سہ روزہ، چلہ، چار مہینے یا سال لگانا، کسی بھی صورت میں فائدہ سے خالی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (آل عمران، الایة: 104)
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo
صحیح البخاری: (18/5، ط: دار طوق النجاۃ)
عن سهل بن سعد رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لأعطين الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه»، قال: فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها، فلما أصبح الناس غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، كلهم يرجو أن يعطاها، فقال: «أين علي بن أبي طالب». فقالوا: يشتكي عينيه يا رسول الله، قال: «فأرسلوا إليه فأتوني به». فلما جاء بصق في عينيه ودعا له، فبرأ حتى كأن لم يكن به وجع، فأعطاه الراية، فقال علي: يا رسول الله، أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا؟ فقال: «انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه، فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا، خير لك من أن يكون لك حمر النعم»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی