سوال:
آج کل ایک بات سوشل میڈیا پر چل رہی ہے کہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم کا لقب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا گیا ہے، جبکہ ہم بچپن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے صدیق کا لقب اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے فاروقِ اعظم کا لقب پڑھتے سنتے آئے ہیں، براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: "صدیق اکبر" اور "فاروق" حضرت علی رضی اللہ عنہ کے القاب نہیں ہیں، اور اس بارے میں پیش کیے جانے والے دلائل اور روایات بے اصل اور باطل ہیں، اور روافض کی گھڑے ہوئی (من گھڑت) روایات ہیں،لہذا ان روایات کا بیان کرنا اور اس کی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔ذیل میں اس حوالے سے تفصیلی کلام نقل کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے "صدیقِ اکبر" کا لقب صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو عطاء فرمایا تھا، کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کسی دلیل کا مطالبہ کیے بغیر آپ ﷺ کی ہر بات کی تصدیق فرماتے تھے۔
۱۔سب سے پہلے آپ ﷺ کے دعوی نبوت کی تصدیق فرماکر مشرف باسلام ہوئے۔
بخاری شریف کی روایت ہے:
ترجمہ:
آپﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا تھا اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی۔(بخاری ،حدیث نمبر: 3661، ط:دارطوق النجاۃ)(1)
۲۔ جب آپ ﷺ سفرِ معراج سے واپس تشریف لائے، اور اپنے سفر کے بارے میں مشرکینِ مکہ کو بتایا، تو انہوں نے اعتراض کیا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے تصدیق فرمائی تو جناب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو "صدیق" کے لقب سے ملقب فرمایا۔
مستدرک حاکم میں ہے:
ترجمہ:
حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کو مسجد اقصی تک سیر کرائی گئی اور صبح کے وقت لوگوں نے اس موضوع پر بات چیت شروع کی تو کچھ لوگ جو آپ ﷺ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی تصدیق کر چکے تھے، مرتد ہو گئے، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: یہ آپ کا ساتھی اس قسم کا دعویٰ کر رہا ہے کہ اسے آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، اب آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آیا آپ ﷺ نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ! سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ ﷺ نے ایسی بات کی ہے تو آپ ﷺ نے سچ فرمایا ہے، انہوں نے کہا: کیا تم تصدیق کرو گے کہ آپ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے پہلے واپس بھی آ گئے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں! (غور کرو کہ) میں تو ان امور میں بھی آپ کی تصدیق کرتا ہوں، جو تمہاری سمجھ کے مطابق اس واقعہ سے بھی مشکل اور بعید ہیں، میں تو صبح کے وقت آسمانی خبر یعنی آپ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں، وہ صبح کو ہو یا شام کو، اسی وجہ سے ابوبکر کو "صدیق" کہا گیا۔(المستدرك للحاكم: حدیث نمبر:4407،ط:دارالکتب العلمیۃ)(2)
۳۔ بخاری شریف میں ہے:
ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ ﷺنے فرمایا "احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ (بخاری ،حدیث نمبر: 3675،ط:دارطوق النجاۃ)(3)
علامہ نووی ؒ (م676ھ)نےفرمایا کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب "صدیق"تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوبکر ہی وہ شخصیت ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے جناب رسول اللہ ﷺکی زبانی "صدیق" کا لقب عطاء فرمایا۔(4)
اسی طرح ’’فاروق‘‘ کا لقب حضرت عمر فاروق بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے لیے خاص ہے۔
۱۔کتبِ تفسیر میں ہے:
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک یہودی اور منافق کا جھگڑا ہوا تو یہودی نے اس منافق کو فیصلے کے لیے جناب رسول اللہ ﷺکی طرف بلایا پھر وہ دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنا فیصلہ لے گئے، آپ ﷺنے یہودی کے حق میں فیصلہ فرما دیا ،جب دونوں باہر آئے تو منافق نے کہا: میں راضی نہیں ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو،تو حضرت ابوبکر نے بھی جناب رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کی طرح یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا تو منافق نے کہا: آجاؤ! ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا فیصلہ لے جاتے ہیں جب دونوں حضرت عمر کے پاس پہنچےتو یہودی نے حضرت عمر کو ساری بات بتائی اور اس منافق نے بھی اس کی تصدیق کی تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو! یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آتا ہوں۔ حضرت عمر گھر گئے اور اپنی تلوار اٹھا لائے اور باہر آکر اس منافق کی گردن اڑا دی یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا ۔ پھر انہوں نے فرمایا میں اسی طرح فیصلہ کرتا ہوں اس آدمی کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہو ،اس قصہ پر یہ آیات(سورۃ النساء کی آیت 60، 61)نازل ہوئی اور حضرت جبریل علیہ السلام نےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: عمر نے حق اور باطل میں تفریق کی تو آپ ﷺ نے حضرت عمر کو ’’فاروق‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا۔(5)
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (م852ھ)نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت کے بارے میں فرمایا:
یہ سند (کلبی عن ابی الصالح عن ابن عباس) کی وجہ سے اگرچہ کمزور ہے، لیکن مجاہد کی سند سے اس کو تقویت ملتی ہے۔(6)
۲۔علامہ ابن سعد ؒ (م230ھ)نے "الطبقات الکبری" میں روایت نقل کی ہے:
ترجمہ:
حضرت ایوب بن موسی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے حضرت عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا، اور وہی فاروق ہیں، جن کی وجہ سے اللہ تعالی نے حق اور باطل کے درمیان تفریق فرمائی۔(7)
۳۔ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر کا لقب "فاروق" کس نے منتخب کیا؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:جناب رسول اللہ ﷺ نے منتخب فرمایا ہے۔(8)
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (م852ھ)فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لقب "فاروق" پر علماء کا اتفاق ہے۔(9)
جن روایات سے استدال کیا جاتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے "صدیق اکبر" اور "فاروق" کا لقب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا تھا۔اس مضمون کی روایات چھ صحابہ کرام: حضرت علی، حضرت ابوذر، حضرت ابوذر، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابن عباس، حضرت ابو لیلی غفاری اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیں۔
ذیل میں ان روایات کو ذکر کیا جاتا ہے اور ان کی اسنادی حیثیت کو بھی واضح کیا جاتا ہے:
(الف) سنن ابن ماجہ میں ہے۔
ترجمہ:
عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول ﷺکا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا، میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی۔(حدیث نمبر:120،ط: دار الرسالة العالمية)(10)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت عباد بن عبداللہ کے طریق سے درج ذیل کتابوں میں بھی ذکر کی گئی ہے۔
۱۔مصنف ابن أبی شیبۃ:(17 /106 )(32747)،ط: دار القبلة)
۲۔ فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل:2 / 856 (993)،ط: مؤسسة الرسالة)
۳۔الآحاد والمثانی لابن أبي عاصم:( 1 / 148)(178)،ط: دار الراية)
۴۔السنۃ لابن أبي عاصم: (2 /5 98)(1324)،ط: المكتب الإسلامي)
۵۔مستدرک للحاکم :( 3 /120)(4584)،ط: دارالکتب العلمیۃ)
۶۔ معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم: (1/86 )(339)،ط: دار الوطن)
۷۔السنن الکبری للبیھقی:( 5 /106 )(8395)،ط: دارالکتب العلمیۃ)
مذکورہ بالا روایت کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ بالا روایت کو امام حاکم (م405ھ)نے مستدرک میں "صحیح علی شرط الشیخین" قرار دیا ہے، لیکن علامہ ذہبی ؒ نے ان پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: یہ حدیث بخاری اور مسلم میں سے کسی کی شرائط کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی صحیح ہے، بلکہ یہ حدیث باطل ہے، کیونکہ اس میں "عباد بن عبد الله الأسدی" ہے، ابن المدینی نے انہیں ضعیف قراردیا ہے۔
اس روایت کی سند کا مدار "عباد بن عبد الله الأسدی" پر ہے، اور عباد بن عبد الله الأسدي" پر محدثین کرام نے جرح کی ہے۔
امام بخاریؒ (م256ھ)نے فرمایا: یہ راوی محل ِنظر ہے۔
علامہ ابن جوزی(م654ھ) نے فرمایا:
امام احمد بن حنبل ؒ (م241ھ)نے عباد بن عبداللہ الاسدی کی "انا الصدیق الاکبر" والی روایت پر پابندی لگائی تھی اور فرمایا کہ یہ روای منکر ہے۔
امام ذہبیؒ (م748ھ)نے "میزان الاعتدال" (۲؍۳۳۴،ط:الرسالۃ العالمیۃ) میں مذکورہ روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:یہ (بات)حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہے۔(11)
مذکورہ بالاحدیث کے دیگر طرق:
(الف)مذکورہ بالا روايت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً کئی طرق سے مروی ہے۔
۱۔ سليمان بن عبد الله عن معاذة العدوية، عن علي.
(الضعفا ء الکبیر للعقیلی،۲؍۱۳۰،(۶۱۶)،ط: دار الکتب العلمیۃ)
اس سند کا مدار "سليمان بن عبد الله " پر ہےاور علامہ ابن عدی ؒ نے کہا:
سلیمان اسی روایت سے پہچانے جاتے ہیں اور ان کی مجھے اس ایک روایت کے علاوہ کوئی روایت معلوم نہیں ہے اور اس روایت میں ان کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔(12)
۲۔ روى عن: نوح بن قيس، عن محمد بن سلمة بن كهيل، عن أبيه، عن حبة العرني.
اس سند میں ایک روای 'محمد بن سلمہ" ہیں، جن کے بارے میں علامہ ابن عدی ؒ نے فرمایا: وہ بے اصل روایات بیان کرتا تھا اور ان کا شمار کوفہ کے شیعوں میں ہوتا تھا۔
اس سند میں ایک اور راوی "حبة العرني" ہے، ان پر سخت کلام کیا گیا ہے۔(13)
(ب) دوسری حدیث ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ہے۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:آپ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہو اورآپ مجھ سے قیامت کے دن سب سے پہلے مصافحہ کرنے والے ہو،اور آپ ہی صدیقِ اکبر ہو،اور آپ ہی فاروق ہو جو حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے،اور آپ مؤمنين کے سردارہیں اور مال کفار کا سرادر ہے۔
امام بزار ؒ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: اس حدیث کو ہم نہیں جانتے، یہ اسی سند سے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے اور ابورافع نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے سوائے اس حدیث کے کوئی روایت نقل نہیں کی ہے۔(14)
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (م852ھ)نے "مختصر زوائد مسند البزار" میں اس حدیث کی سند پر کلام کیا کہ یہ سند بے اصل ہے اور محمد متہم ہے اور عباد راوفض کے بڑوں میں سے ہے۔
علامہ ابن حبان (م354ھ) نے فرمایا: یہ(عباد بن یعقوب )رفض یعنی شیعت کا داعی تھا اور مشاہیر علماء سے مناکیر (غیر مسند باتیں) نقل کرتا تھا تو یہ مستحق ہے کہ اس کی روایت کو ترک کیا جائے۔(15)
۲۔ مذکورہ بالا روایت حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ایک اور طریق سے بھی مروی ہے۔
حدثنا أبو الصلت الهروي قال حدثنا علي بن هشام قال حدثنا محمد بن عبيد الله بن أبي رافع:
اس طریق سے ابن الجوزی(م597ھ) نے روایت نقل کی ہے آخر میں اس یہ اضافہ ہے’’مال ظالموں کا سردارہے‘‘۔
اس طریق میں ’’ابو الصلت ہروی‘‘ روای ہے، جس کے بارے میں علامہ ابن الجوزی(م597ھ) فرماتے ہیں کہ وہ جھوٹا، رافضی اور خبیث تھا۔(16)
(ج)تیسری حدیث ابوذر غفاری و سلیمان فارسی رضی اللہ عنہما سے ہے۔
حضرت ابوذر اور حضرت سلیمان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کرفرمایا:یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہے اوریہ مجھ سے قیامت کے دن سب سے پہلے مصافحہ کرنے والے ہے،اور یہ ہی صدیقِ اکبر ہے،اور یہ ہی فاروق ہے جو حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے،اور یہ مؤمنين کے سردارہیں اور مال ظالم کا سرادر ہے۔
علامہ ہیثمی ؒ (م807ھ)فرماتے ہیں: اس سند میں عمرو بن سعید راوی ضعیف ہے۔(17)
(د) چوتھی حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عن قریب فتنہ برپا ہوگا اگرتم سے سے کوئی اس کوپائے تواس پردوخصلتیں لازم ہیں ،ایک کتاب اللہ اوردوسری علی بن ابی طالب،کیوں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا اور انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہواتھا کہ یہ علی مجھ پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور یہ علی مجھ سے قیامت کے دن سب سے پہلے مصافحہ کرنے والے ہیں،اور یہ علی ہی اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے،اور یہ مؤمنين کے سردارہیں اور مال ظالموں کا سرادر ہے اور یہ علی ہی صدیق اکبر ہیں ،یہ علی ہی میرا وہ دروازہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے اور یہ علی ہی میرے بعد میرے خلیفہ ہیں۔
علامہ عقیلی ؒ (م322ھ)نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا: اس کی سند میں "داهر بن يحيى" ہے، جو غالی، کٹر قسم کا شیعہ ہے ۔
امام ذہبی ؒ (م748ھ)نے فرمایا: اللہ تعالی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مستغنی کیا ہے کہ ان کی شان باطل اور جھوٹی روایت گھڑ کر بیان کی جائے۔(18)
(ہ)پانچویں حدیث أبو ليلى الغفاری سے ہے۔
’’إسحاق بن بشر، عن خالد بن الحارث، عن عوف، عن الحسن، عن أبي ليلى الغفاري ‘‘ کی طریق سے علامہ ابن عبدالبر(م463ھ)نے ذکرکی ہے۔
حضرت ابو الیلی الغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا :عن قریب فتنہ برپا ہوگا اگروہ برپا ہوجائے توعلی بن ابی طالب کو لازم پکڑو!کیوں کہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مجھے دیکھا ہے اور یہ علی مجھ سے قیامت کے دن سب سے پہلے مصافحہ کرنے والے ہیں ،وہ ہی صدیق اکبر ہیں اور وہ ہی اس امت کے فاروق ہو جو حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے،اور وہ ہی مؤمنين کے سردارہیں اور مال منافقین کا سرادر ہے اور،یہ علی ہی میرا وہ دروازہ ہیں جو مجھے دیا گیا ہے اور یہ علی ہی میرے بعد میرے خلیفہ ہیں۔
اس روایت کو نقل کرنے بعد علامہ ابن عبد البر (م463ھ)فرماتے ہیں: اس سند میں اسحاق بن بشر کمزور راوی ہے، اور جب وہ کسی روایت کے نقل کرنے میں متفرد(اکیلے) ہوں تو ضعیف اور ثقات کی مخالفت کی وجہ سے ان کی مرویات قابلِ احتجاج نہیں ہوں گی۔(19)
(ح) چھٹی حدیث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو علامہ علی المتقی(م975ھ) نے کنزالعمال میں بیھقیؒ اور ابن عدی ؒ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ذکرکیا ہے۔(20)
خلاصہ کلام:
ٍ"صدیق اکبر" اور "فاروق" حضرت علی رضی اللہ عنہ کے القاب نہیں ہیں، اور اس بارے میں پیش کیے جانے والے دلائل اور روایات بے اصل اور باطل ہیں، اور روافض کی گھڑے ہوئی (من گھڑت) روایات ہیں، لہذا صحیح یہ ہے کہ "صدیق اکبر" حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب ہے اور "فاروق" حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لقب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1)صحيح البخاري :(5/5،رقم الحديث: 3661، ط:دارطوق النجاۃ)
عن أبي الدرداء رضي الله عنه، ۔۔۔۔فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الله بعثني إليكم فقلتم كذبت، وقال أبو بكر صدق، وواساني بنفسه وماله۔۔۔الخ
(2)المستدرك للحاكم:3/65،رقم الحديث:4407،ط:دارالكتب العلمية)
عن عائشة رضي الله عنها قالت: " لما أسري بالنبي صلى الله عليه وسلم إلى المسجد الأقصى أصبح يتحدث الناس بذلك، فارتد ناس فمن كان آمنوا به وصدقوه، وسمعوا بذلك إلى أبي بكر رضي الله عنه، فقالوا: هل لك إلى صاحبك يزعم أنه أسري به الليلة إلى بيت المقدس، قال: أو قال ذلك؟ قالوا: نعم، قال: لئن كان قال ذلك لقد صدق، قالوا: أو تصدقه أنه ذهب الليلة إلى بيت المقدس وجاء قبل أن يصبح؟ قال: نعم، إني لأصدقه فيما هو أبعد من ذلك أصدقه بخبر السماء في غدوة أو روحة، فلذلك سمي أبو بكر الصديق
هذاالحديث قال فيه الحاكم :’’ هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ‘‘ووافقه الذهبي
(3) صحيح البخاري :(5/9،رقم الحديث: 3675، ط:دارطوق النجاۃ)
عن قتادة، أن أنس بن مالك رضي الله عنه، حدثهم أن النبي صلى الله عليه وسلم صعد أحدا، وأبو بكر، وعمر، وعثمان فرجف بهم، فقال: «اثبت أحد فإنما عليك نبي، وصديق، وشهيدان۔
(4) تهذيب الأسماء و اللغات للنووی: (1/281، ط: دار الکتب العلمیة)
وأجمعت الأئمة على تسميته صديقًا. قال على بن أبى طالب، رضى الله عنه: إن الله تعالى هو الذى سمى أبا بكر على لسان رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صديقًا، وسبب تسميته أنه بادر إلى تصديق رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ولازم الصدق، فلم يقع منهم هناة ولا وقفة فى حال من الأحوال.
(5) التحرير والتنويرلابن عاشور:5/103 ،ط:الدار التونسية)
وعن ابن عباس أن اليهودي دعا المنافق إلى التحاكم عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وأن المنافق دعا إلى كعب ابن الأشرف، فأبى اليهودي وانصرفا معا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقضى لليهودي، فلما خرجا، قال المنافق: لا أرضى، انطلق بنا إلى أبي بكر، فحكم أبو بكر بمثل حكم رسول الله، فقال المنافق: انطلق بنا إلى عمر، فلما بلغ عمر، وأخبره اليهودي الخبر وصدقه المنافق، قال عمر: رويدكما حتى أخرج إليكما، فدخل وأخذ سيفه ثم ضرب به المنافق حتى برد، وقال: هكذا أقضي على من لم يرض بقضاء الله ورسوله.فنزلت الآية وقال جبريل: إن عمر فرق بين الحق والباطل فلقبه النبيء صلى الله عليه وسلم’’الفاروق‘‘.
(6)فتح ا لباري: 5/38،ط:دارالمعرفة
وتسمية عمر الفاروق وهذا الإسناد وإن كان ضعيفا لكن تقوى بطريق مجاهد .
(7) الطبقات الكبير لابن سعد: (3/351، رقم الحديث:3791،ط: مكتبة الخانجي)
عن أيوب بن موسى, قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه، وهو الفاروق، فرق الله به بين الحق والباطل.
(8) الطبقات الكبير لابن سعد: (3/351، رقم الحديث:3792،ط: مكتبة الخانجي)
عن أبي عمرو ذكوان, قال: قلت لعائشة: من سمى عمر الفاروق؟ قالت: النبي عليه السلام.
(9) فتح الباري: (7/44، ط: دار المعرفة)
وأما لقبه فهو الفاروق باتفاق.
(10)سنن ابن ماجة:(1/87،رقم الحديث:120،ط:دارالرسالة العالمية)
حدثنا محمد بن إسماعيل الرازي، حدثنا عبيد الله بن موسى، أخبرنا العلاء بن صالح، عن المنهال، عن عباد بن عبد الله، قال:قال علي: أنا عبد الله، وأخو رسوله - صلى الله عليه وسلم -، وأنا الصديق الأكبر، لا يقولها بعدي إلا كذاب، صليت قبل الناس بسبع سنين.
هذا الحديث أخرجه ابن أبي شيبة في ’’مصنفه‘‘(17 /106 )(32747)،و الإمام أحمد في ’’فضائل الصحابة‘‘(2 / 856 (993)، ابن أبي عاصم في ’’الآحاد و المثاني ‘‘:( 1 / 148)(178) وفي ’’كتاب السنة ‘‘(2 /5 98)(1324)والنسائي في ’’سننه الكبرى‘‘(7 /409 )(8338) العقيلي في ’’الضعفاء‘‘(3 / 137)و أبو نعيم الاصبهاني في ’’معرفة الصحابة‘‘(1/86 )(339) والحاكم في ’’مستدركه‘‘( 3 /120)(4584) والبيهقي في ’’سننه الكبرى‘‘( 5 /106 )(8395)
(11)هذا الحديث أخرجه ا لحاكم في ’’مستدركه‘‘( 3 /120)(4584)وقال: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه ، واستدرك عليه الذهبي قال في التلخيص (4584):كذا قال وهو ليس على شرط واحد منهما، بل ولا هو بصحيح، بل حديث باطل فتدبره وعباد قال ابن المديني : ضعيف.
وفي هذاالحديث’’عباد بن عبد الله الأسدي‘‘قال فيه الإمام البخاري في ’’تاريخه الكبير:( 6 /32)(1594)’’وفيه نظر‘‘
قال ابن الجوزي كماذكره ابن حجر العسقلاني في ’’ تھذیب التھذیب ‘‘(5 /98): ضرب ابن حنبل على حديثه عن علي أنا الصديق الأكبر وقال هو منكر. قال الذهبي في ’’الميزان‘‘(2/334) قلت: هذا كذب على علي.
(12)طريق سليمان بن عبد الله عن معاذة العدوية:
ذكره العقيلي في ’’الضعفاء ‘‘(2 /130)( 616) وقال ابن عدي في’’ الكامل‘‘ :(4/268)و سليمان يعرف بهذا الحديث، ولاَ أعرف له غيره ولم يتابع على هذه الرواية كما قاله البخاري).
(13)طريق نوح بن قيس، عن محمد بن سلمة بن كهيل، عن أبيه، عن حبة العرني.
ذكره االجورقاني في ’’الأباطيل والمناكير ‘‘(1/293) و محمد بن سلمة بن كهيل قال فيه ابن عدي ’’الكامل‘‘(7/444)(1686):سمعت ابن حماد يقول: قال السعدي محمد ويحيى ابنا سلمة بن كهيل واهيا الحديث. ۔۔۔ومحمد بن سلمة له أحاديث غير ذلك وكان ممن يعد من متشيعي الكوفة.
و حبة العرني ذكره ابن حبان في ’’ المجروحين ‘‘(1/267)(272)وقال:كان غاليا في التشيع واهيا في الحديث. وقال ابن عدي في ’’الكامل‘‘(3/355): ما رأيت له منكرا جاوز الحد.
(14) مسند البزار:(9/342،رقم الحديث:3898،ط: مكتبة العلوم والحكم)
حدثنا عباد بن يعقوب العرزمي، قال: نا علي بن هاشم، قال: نا محمد بن عبيد الله بن أبي رافع، عن أبيه، عن جده أبي رافع، عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه، قال لعلي بن أبي طالب: «أنت أول من آمن بي، وأنت أول من يصافحني يوم القيامة، وأنت الصديق الأكبر، وأنت الفاروق تفرق بين الحق والباطل، وأنت يعسوب المؤمنين، والمال يعسوب الكفار» وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن أبي ذر إلا من هذا الوجه، ولا روى أبو رافع، عن أبي ذر إلا هذا الحديث.
(15) ذكره ابن حجر العسقلاني في‘‘مختصر زوائد مسند البزار‘‘ (2/597، ط: مؤسسة الکتب الثقافیة) قال:
قلت: هذا الإسناد واهي, ومحمد متهم, وعباد من كبار الروافض، وإن كان صدوقا في الحديث. قال ابن حبان في ’’عباد بن يعقوب‘‘كمافي ’’الميزان‘‘(2/344):كان داعية إلى الرفض، ومع ذلك يروي المناكير عن المشاهير، فاستحق الترك.
(16)الموضوعات لابن الجوزي:( 1/345،ط: المكتبة السلفية)
حدثنا أبو الصلت الهروي قال حدثنا علي بن هشام قال حدثنا محمد بن عبيد الله بن أبي رافع مثله سواء، إلا أنه قال: " والمال يعسوب الظلمة،وأما الطريق الثاني: ففيه أبو الصلت الهروي وكان كذابا رافضيا خبيثا، فقد اجتمع عباد وأبو الصلت في روايته عن علي بن هاشم، فالله أعلم أيهما سرقه من صاحبه).
(17) المعجم الكبيرللطبراني:( 6/269،رقم الحديث: 6184 ،ط:مكتبة ابن تيمية)
حدثنا عمر وبن سعيد، عن فضيل بن مرزوق، عن أبي سخيلة، عن أبي ذر، وعن سلمان قالا: أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بيد علي رضي الله عنه، فقال:إن هذا أول من آمن بي، وهو أول من يصافحني يوم القيامة، وهذا الصديق الأكبر، وهذا فاروق هذه الأمة، يفرق بين الحق والباطل، وهذا يعسوب المؤمنين، والمال يعسوب الظالم.
وهذا الحديث ذكره الهيثمي في ’’مجمع الزوائد‘‘(9/102)(14597)وقال: رواه الطبراني والبزار عن أبي ذر وحده، وقال فيه: " «أنت أول من آمن بي» ". وقال فيه: " «والمال يعسوب الكفار» ".
وفيه عمرو بن سعيد المصري، وهو ضعيف.
(18) الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/47)
حدثنا علي بن سعيد قال: حدثني عبد الله بن داهر بن يحيى الرازي قال: حدثني أبي، عن الأعمش، عن عباية الأسدي، عن ابن عباس قال: ستكون فتنة، فإن أدركها أحد منكم فعليه بخصلتين: كتاب الله، وعلي بن أبي طالب، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وهو آخذ بيدي: «علي هذا أول من آمن بي، وأول من يصافحني يوم القيامة، وهو فاروق هذه الأمة، يفرق بين الحق والباطل، وهو يعسوب المؤمنين، والمال يعسوب الظلمة، وهو الصديق الأكبر، وهو بابي الذي أوتى به، وهو خليفتي من بعدي)» .وقال العقيلي في ’’الضعفاء الكبير‘‘(2/46)(477):داهر بن يحيى الرازي كان ممن يغلو في الرفض ولا يتابع على حديثه. وقال الشوكاني في ’’ الفوائد المجموعة ‘‘ (1/345، ط: دار الکتب العلمیة)
رواه الْعُقَيْلِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا. وقال: في إسناده داهر بن يحيى الرازي كان ممن يغلو في الرفض، ولا يتابع على حديثه، وابنه عبد الله بن داهر كذاب وهو الراوي عنه.
وقال الإمام الذهبي في ’’الميزان ‘‘(2/374)(4084)قال ابن عَدِي: عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك.قلت: قد أغنى الله عليا عن أن تقرر مناقبه بالأكاذيب والأباطيل.
(19)الاستيعاب في معرفة الأصحاب :(4/1744)( 3157)،ط:دار الجيل)
من حديثه ما رواه إسحاق بن بشر، عن خالد بن الحارث، عن عوف، عن الحسن، عن أبي ليلى الغفاري، قال:
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ستكون بعدي فتنة، فإذا كان ذلك فالزموا علي بن أبي طالب، فإنه أول من يراني، وأول من يصافحني يوم القيامة، هوالصديق الأكبر، وهو فاروق هذه الأمة، يفرق بين الحق والباطل، وهو يعسوب المؤمنين، والمال يعسوب المنافقين.
(20)قد ذكر العلي المتقي الهندي في ’’ کنز العمال‘‘(11/616)( 32988)وقال:
"طب - عن سلمان وأبي ذر معا؛ هق - عد - عن حذيفة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی