سوال:
کیا کسی ایسے شخص کے لیکچرز سننے اور ان کے انتظام کرنے میں کوئی حرج ہے جو کھلےعام درسگاہ میں دوسرے اماموں (جیسے امام شافعیؒ) کے طریقوں پر اعتراض کرتا ہے اور کسی حد تک توہین آمیز انداز میں تنقید کا نشانہ بناتا ہے؟
جواب: ائمہ اربعہ مجتہدین سب کے سب حق پر ہیں اور ان میں فروعی اختلافات نصوص شرعیہ یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ کے پیروکار ایک دوسرے کو گمراہ نہیں کہتے اور نہ ہی ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے ہیں، البتہ علمی مجالس میں ادب و احترام کے ساتھ دلائل کی روشنی میں اپنے مسلک کی ترجیح کو بیان کرتے ہیں، لہذا اگر کوئی شخص ائمہ اربعہ یا کسی امام مجتہد کے لئے توہین آمیز لہجہ استعمال کرتا ہےیا ان کے طریقے اور مسلک و مذہب کا مذاق اڑاتا ہے تو ایسا شخص گمراہ ہے، اس کو اپنے اس فعل پر توبہ و استغفار کرنی چاہیے، ایسے شخص کا بیان سننا، اس کا انتظام کرنا اور اس کے نشر واشاعت میں کسی بھی قسم کا تعاون کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الحجرات، الایة: 11)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَo
المغنی لابن قدامة: (401/1، ط: مکتبة القاھرۃ)
قَالَ أَحْمَدُ، مَا سَمِعْنَا أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ يَقُولُ: إنَّ الْإِمَامَ إذَا جَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ لَا تُجْزِئُ صَلَاةُ مَنْ خَلْفَهُ إذَا لَمْ يَقْرَأْ. وَقَالَ: هَذَا النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَصْحَابُهُ وَالتَّابِعُونَ، وَهَذَا مَالِكٌ فِي أَهْلِ الْحِجَازِ وَهَذَا الثَّوْرِيُّ، فِي أَهْلِ الْعِرَاقِ، وَهَذَا الْأَوْزَاعِيُّ، فِي أَهْلِ الشَّامِ، وَهَذَا اللَّيْثُ، فِي أَهْلِ مِصْرَ، مَا قَالُوا لِرَجُلٍ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ، وَقَرَأَ إمَامُهُ، وَلَمْ يَقْرَأْ هُوَ: صَلَاتُهُ بَاطِلَةٌ۔۔۔
البحر الرائق: (134/5، دار الکتاب الاسلامی)
ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی