سوال:
مفتی صاحب ! بچے اسکول بیگ کمر کی طرف پہنتے ہیں اور کچھ ٹائروں والے بیگ ہوتے ہیں، اس میں اسلامیات کی کتاب بھی ہوتی ہے، اور پھر بے وضو اسلامیات کی کتاب کو ہاتھ بھی لگاتے ہیں، تو اگر بچوں سے ناسمجھی میں اسلامیات کی بے حرمتی ہو جائے، تو کیا بڑے اس کی وجہ سے گناہگار ہوں گے؟ اور اس لے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟
جواب: یاد رہے کہ چھوٹے اور نابالغ بچے شریعت کے احکامات کے مکلف نہیں ہیں، لہذا اگر وہ آداب (مثلا باوضو ہوکر قرآن پاک کو چھونا وغیرہ) کی رعایت نہ کرسکیں٬ تو یہ ان کے حق میں گناہ اور بے حرمتی شمار نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس کی وجہ سے ان کی ضروری تعلیم اور تربیت کو روکا جائے گا، البتہ والدین٬ اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو آداب سکھائیں، آداب کی رعایت کرنے کا عادی بنائیں٬ اور انہیں آداب پر عمل کرنے کے سلسلے میں سازگار ماحول فراہم کرتے ہوئے، کوئی ایسی صورت اختیار کریں، جس میں کتابوں کو پیٹھ پر لٹکانا لازم نہ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (174/1، ط: دار الفکر)
"(ولا) يكره (مس صبي لمصحف ولوح) ولا بأس بدفعه إليه وطلبه منه للضرورة إذ الحفظ في الصغر كالنقش في الحجر.
رد المحتار: (174/1، ط: دار الفکر)
(قوله: ولايكره مس صبي إلخ) فيه أن الصبي غير مكلف والظاهر أن المراد لايكره لوليه أن يتركه يمس، بخلاف ما لو رآه يشرب خمراً مثلاً فإنه لايحل له تركه.
(قوله: ولا بأس بدفعه إليه) أي لا بأس بأن يدفع البالغ المتطهر المصحف إلى الصبي، ولايتوهم جوازه مع وجود حدث البالغ ح.
(قوله: للضرورة) لأن في تكليف الصبيان وأمرهم بالوضوء حرجا بهم، وفي تأخيره إلى البلوغ تقليل حفظ القرآن درر"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی