سوال:
السلام عليكم، زید نے عمر سے ایک گاڑی خریدی اور اب تک صرف آدھی قیمت ادا کی، اب زید عمر کو وہی گاڑی بیچنا چاہتا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے، جبکہ گاڑھی کی پوری رقم ادا نہیں کی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ادھار پر فروخت کی گئی چیز کو ساری قیمت وصول ہونے سے پہلے٬ دوبارہ واپس خریدنا (چاہے کم قیمت پر ہو یا زیادہ پر) جائز نہیں ہے٬ کیونکہ اس طریقہ کار میں عموما خرید و فروخت مقصود نہیں ہوتی ہے٬ بلکہ قرض لینا مقصود ہوتا ہے اور خرید و فروخت کے معاملے کو سود کے لین دین کا حیلہ بنایا جاتا ہے٬ جس کی وجہ سے یہ صورت جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 275)
أحل اﷲ البیع وحرم الربوا....الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (73/5، ط: دار الفکر)
(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا… أي لو باع شيئا وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لا يجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالا أو مؤجلا۔
بدائع الصنائع: (198/5، ط: دار الکتب العلمیة)
(ومنها) الخلو من شبهة الربا لأن الشبهة ملحقة بالحقيقة في باب الحرمات احتياطا… وعلى هذا يخرج ما إذا باع رجل شيئا نقدا أو نسيئة، وقبضه المشتري ولم ينقد ثمنه - أنه لا يجوز لبائعه أن يشتريه من مشتريه بأقل من ثمنه الذي باعه منه عندنا۔
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 2145/6
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی