سوال:
مفتی صاحب ! کیا مرد لال رنگ کا لباس پہن سکتا ہے، اگر نہیں پہن سکتے تو اس روایت کی کیا تطبیق ہوگی، جس میں آیا ہے کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی دراز گیسوں والے شخص کو سرخ جورے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا؟ (مسلم: 2337) براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: مردوں کے لیے خالص سرخ رنگ کا لباس پہننے کے بارے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں، بعض علماء کرام خالص سرخ رنگ کا لباس مردوں کے لیے جائز سمجھتے ہیں، چنانچہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللّٰہ صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) تحریر فرماتے ہیں:
سرخ رنگ کا لباس مردوں کو استعمال کرنا اگرچہ مختلف فیہ ہے، تاہم بہت سے فقہاء جواز کے قائل ہیں۔
آنحضرت سے سرخ حلہ کا استعمال کرنا ثابت ہے، حدیث میں "حلة حمراء" کا لفظ آیا ہے۔
بعض علماء نے اس میں یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ حلہ ڈوریہ کا تھا، خالص سرخ نہیں ہوگا، مگر حدیث کے اندر یہ تصریح نہیں ہے، بہر حال سرخ رنگ کا استعمال جائز ہے۔
(کفایت المفتی،ج:9،ص:166،ط:دارالاشاعت)
جبکہ دیگر علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ خالص سرخ رنگ کا لباس مردوں کے لیے پہننا مکروہ تنزیہی (خلاف اولی) اور ناپسندیدہ ہے۔
چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس اللہ سرہ لکھتے ہیں:
عورتوں کے لیے ہر قسم کا رنگ جائز ہے، اور مردوں کے لیے کسم اور زعفران کا اتفاقاً ممنوع ہے، اور سرخ میں اختلاف ہے۔
بعض کے نزدیک حرام، بعض کے نزدیک مباح، بعض کے نزدیک مستحب، بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے اور قول اخیر مفتی بہ ہے۔
(امداد الفتاوی،ج:4،ص:125،ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)
مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
احمر قانی میں اختلاف ہے، مختلف اقوال میں سے ایک قول استحباب کا بھی ہے، مگر ترجیح کراہت تنزیہہ کے قول کو ہے۔
(احسن الفتاوی،ج:8،ص:62،ط:ایچ ایم سعید کمپنی)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مفتی بہ قول کے مطابق مردوں کے لیے خالص سرخ رنگ کا لباس پہننا مکروہ تنزیہی (خلاف اولی) ہے، کیونکہ خالص سرخ رنگ کا کپڑا عموماً عورتیں پہنتی ہیں، اور مردوں کو عورتوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
جہاں تک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سرخ رنگ کا لباس پہننے یا سرخ چادر اوڑھنے کا تذکرہ ہے، تو اس سے مراد یمنی سرخ دھاری دھار لباس یا چادر ہے، خالص سرخ رنگ مراد نہیں ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص خالص سرخ رنگ کا لباس پہنتا ہے، تو اس کا یہ فعل شرعی لحاظ سے اگرچہ بہتر نہیں ہے، لیکن اس کو حرام نہیں کہا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
عمدة القاري: (23/22، ط: دار احیاء التراث العربی)
السَّابِع تَخْصِيص الْمَنْع بِالثَّوْبِ الَّذِي يصْبغ كُله وَأما مَا فِيهِ لون آخر غير الْأَحْمَر من بَيَاض وَسَوَاد وَغَيرهمَا فَلَا وعَلى ذَلِك تحمل الْأَحَادِيث الْوَارِدَة فِي الْحلَّة الْحَمْرَاء فَإِن الْحلَل اليمانية غَالِبا تكون ذَات خطوط حمر وَغَيرهَا.
مرقاۃ المفاتیح: (240/2، ط: دار الفکر)
(حمراء) ، أي: فيها خطوط حمر، ولعلها كانت من البرود اليمانية، قال المظهر: «قد نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن لبس المعصفر وكره لهم الحمرة في اللباس» ، وكان ذلك منصرفا إلى ما صبغ بعد النسج ذكره الطيبي، قال ابن الملك: قيل تأويله أنه لم تكن تلك الحلة حمراء جميعها، بل كان فيها خطوط حمر ; لأن الثوب الأحمر من غير أن يكون فيه لون أحمر مكروه للرجال، لما فيه من المشابهة بالنساء.
العرف الشذی: (212/1، ط: دار احیاء التراث العربی)
قوله: (حلة حمراء) الحلة الرداء والإزار من جنس واحد، وأما لبس الثوب الأحمر للرجال فصنف الشرنبلالي رسالة في هذا، وفيه تسعة أقوال، فقيل: إن الأحمر القاني يستحب لبسه، وقيل: إنه حرام، وأقول: إن المعصفر والمزعفر مكروه تحريماً، وأما الأحمر القاني فيكره تنزيهاً، وأما ما فيه خطوط حمراء فلبسه جائز، ويمكن لأحد ادعاء استحبابه، وأما الحلة الحمراء المذكورة في حديث الباب، فقال ابن القيم: إن فيها خطوطاً حمراء، والقرينة على هذا لفظ الجرة فإنها ذات جداول حمراء تجلب من اليمن، ولأن في سنن أبي داود: «أن عبد الله بن عمرو شهد النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لابساً الثوب الأحمر القاني، فنهاه رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فأحرقه عبد الله» .
وقد ذكروا تحويل الوجه يمنة ويسرة في الإقامة أيضاً.
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (ص: 529، ط: دار الکتب العلمیة)
قوله: "ويلبس أحسن ثيابه" أي أجملها جديدا كان أو غسيلا لأنه صلى الله عليه وسلم كان يلبس بردة حمراء في كل عيد وهذا يقتضي عدم الاختصاص بالأبيض والحلة الحمراء ثوبان من اليمين فيهما خطوط حمر وخضرلا أنها حمراء بحت نهر والبحت الخالص لأن الأحمر القانىء أي شديد الحمرة مكروه كذا في شرح السيد بزيادة.
البحر الرائق: (171/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وظاهر كلامهم تقديم الأحسن من الثياب في الجمعة والعيدين، وإن لم يكن أبيض، والدليل دال عليه فقد روى البيهقي «أنه - عليه الصلاة والسلام - كان يلبس يوم العيد بردة حمراء» ، وفي فتح القدير واعلم أن الحلة الحمراء عبارة عن ثوبين من اليمن فيهما خطوط حمر وخضر لا أنها أحمر بحت فليكن محمل البردة أحدهما اه.
بدليل نهيه - عليه السلام - عن لبس الأحمر كما رواه أبو داود والقول مقدم على الفعل، والحاظر مقدم على المبيح لو تعارضا فكيف إذا لم يتعارضا بالحمل.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی