سوال:
میں ایک پرائیویٹ سکول کا مالک ہوں، گزشتہ 4 سال سے صاحب نصاب ہوں، اس سال اسکول کیلئے بلڈنگ کی ضرورت پڑی تو ایک بلڈنگ کرایہ پر لے لی، جس کی تعمیر مکمل نہیں تھی، بلڈنگ کے مالک نے شرط لگائی کہ بلڈنگ کی تعمیر و مرمت کا خرچہ آپ برداشت کرینگے، جو کہ بعد میں کرایہ میں کاٹ دیا جائیگا۔ جب میں نے بلڈنگ کی تعمیر ومرمت مکمل کی تو میرے پاس اگرچہ نصاب کے برابر رقم باقی تھی، لیکن بلڈنگ کی تعمیر کا قرض میرے ذمہ موجودہ رقم سے کئی گنا زیادہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں اس قرض کے باوجود صاحب نصاب ہوں یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر ایک شخص مقروض ہونے کے باوجود مالدار ہو، تو اس صورت میں اس کے مال سے قرض کی مقدار نکالنے کے بعد، اگر بقدر نصاب مالیت بچتی ہے، تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی، چاہے قرض ادا کرے یا نہ کرے، البتہ اگر قرض کی مقدار نکالنے کے بعد نصاب کے برابر مالیت نہیں بچتی، تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح القدیر: (140/2)
ومن کان علیہ دین یحیط بمالہ، ولہ مطالب من جہۃ العباد سواء کان من النقود أو من غیرہا، وسواء کان حالا أو مؤجلا، فلا زکاۃ علیہ۔
الدر المختار: (259/2، ط: دار الفکر)
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی