سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں، جس میں سے تین بھائی اور ایک بہن کا انتقال ہو گیا ہے، اب یہ شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہتا ہے، اس کے ورثاء میں صرف ایک بھائی اور ایک بہن ہے، بیوی، بچے اور والدین نہیں ہیں، اس کی جائیداد شرعی ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگی؟ نیز کیا یہ ساری جائیداد مسجد یا مدرسے میں دے سکتا ہے یا وصیت کرسکتا ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: انسان کو اپنی زندگی میں اپنی مملوکہ جائیداد میں تصرف کا مکمل اختیار حاصل ہے، وہ اپنی جائیداد میں سے جس قدر جس کو مناسب سمجھے دے سکتا ہے اور جس قدر اپنے لیے روکنا چاہے یا مسجد و مدرسہ میں دینا چاہے، دے سکتا ہے، اسی طرح اگر ورثہ کو محروم کرنا مقصود نہ ہو، اور وہ حاجتمند بھی نہ ہوں تو اپنی زندگی میں اپنی کل جائیداد بھی مسجد یا مدرسے میں دے سکتا ہے، اور اگر وہ چاہے تو اپنی کل مملوکہ جائیداد کے ایک تہائی حصہ کی وصیت بھی کر سکتا ہے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی میں قانون میراث کے حساب سے بہن کو ایک تہائی اور بھائی کو دو تہائی حصہ دیدے یا بہن اور بھائی دونوں کو برابر حصہ دیدے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (687/5، ط: دار الفکر)
(هي)...(تمليك العين مجانا) أي بلا عوض....الخ
شرح المجلة لسلیم رستم باز: (رقم المادۃ: 833)
"الہبۃ تملیک مال لآخر بلا عوض، أي بلا شرط عوض".
و فیه أیضاً: (رقم المادۃ: 837)
"تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنہا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".
السراجی فی المیراث: (ص: 3، ط: المطبع العلمی)
تتعلق بترکۃ المیت حقوق أربعۃ مرتبۃ، ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین۔
رد المحتار: (366/4، ط: دار الفکر)
"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به".
فتح القدیر: (203/6، ط: دار الفکر)
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولايورث".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی