سوال:
مفتی صاحب ! ایک بندے نے یہ وصیت کی ہے کہ میری زمین کا فلان حصہ میرے مرنے کے بعد میرے خاندان کے لوگوں کو دفنانے کے لیے وقف ہے، ابھی اس زمین میں کسی کو دفن نہیں کیا گیا ہے اور اس شخص کے ورثاء اس زمین کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کی وصیت شرعا معتبر ہے، جس کا نفاذ شرعاً ورثاء پر مرحوم کے صرف ایک تہائی (1/3) مال کے بقدر لازم ہے۔
لہذا زمین کا مذکورہ حصہ اگر مرحوم کے ایک تہائی مال کے بقدر یا اس سے کم ہو، تو وہ حصہ مرحوم کی وصیت کے مطابق خاندان کے افراد کو دفنانے کے لئے مخصوص ہوگا، اور اگر زمین کا مذکورہ حصہ ایک تہائی مال سے زائد ہو، تو صرف تہائی مال کے بقدر حصہ مذکورہ مقصد کے لئے مخصوص ہوگا اور ورثاء کے لئے اس حصہ کو آپس میں تقسیم کرنا شرعاََ جائز نہیں ہوگا، جبکہ تہائی مال سے زائد حصہ ورثاء کا حق ہے، جو ان کو دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (351/2، ط: دار الفکر)
ولو علق الوقف بموته بأن قال: إذا مت فقد وقفت داري على كذا ثم مات صح ولزم إذا خرج من الثلث وإن لم يخرج من الثلث يجوز بقدر الثلث ويبقى الباقي إلى أن يظهر له مال آخر أو تجيز الورثة فإن لم يظهر له مال آخر ولم تجز الورثة تقسم بينهما أثلاثا ثلثها للوقف والثلثان للورثة ولو علقه بالموت وهو مريض مرض الموت فكذلك الحكم۔۔۔الخ
تبیین الحقائق: (326/3، ط: المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
ولو علق الوقف بموته بأن قال إذا مت فقد وقفت داري على كذا ثم مات صح ولزم إذا خرج من الثلث لأن الوصية بالمعدوم جائزة كالوصية بالمنافع ويكون ملك الميت باقيا فيه حكما فيتصدق عنه دائما وإن لم يخرج من الثلث يجوز بقدر الثلث۔۔۔الخ
احسن الفتاویٰ: (410/6، ط: سعید)
فتاوی دار العلوم زکریا: (643/4)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی