سوال:
مفتی صاحب ! کیا کسی ہندو کے ساتھ کھانا یا جس گلاس میں ہندو نے پانی پیا ہو، اس گلاس میں پانی پینا جائز ہے ؟
جواب: ہندوؤں کے ساتھ کھانے پینے سے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر ہندو کے ہاتھ اور منہ پر ظاہری نجاست نہ لگی ہو اور کھاناحلال ہو اور برتن بھی پاک ہو، تو ان کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن اس پر مداومت اختیار کرنا، یعنی اس کی عادت بنالینا مناسب نہیں ہے، البتہ اگر ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے دینی حمیت ختم ہونے کا اندیشہ ہو، تو پھر ایسے کفار سے میل جول رکھنے اور ان کے ساتھ کھانے پینے سے احتیاط کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (آل عمران، الایة: 28)
لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرo
الھندیة: (23/1، ط: دار الفکر)
سؤر الآدمي طاهر ويدخل في هذا الجنب والحائض والنفساء والكافر إلا سؤر شارب الخمر ومن دمي فوه إذا شرب على فور ذلك فإنه نجس وإن ابتلع ريقه مرارا طهر فمه على الصحيح كذا في السراج الوهاج۔
الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (100/24، ط: انوار القرآن، بشاور)
ذهب الحنفية إلى تقسيم الأسآر إلى أربعة أنواع:
النوع الأول: سور متفق على طهارته وهو سؤر الآدمي بجميع أحواله مسلما كان أو كافرا، صغيرا كان أو كبيرا، ذكرا أو أنثى، طاهرا أو جنبا أو حائضا أو نفساء۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی