سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے اپنی زمین 10 لاکھ میں 1 ماہ کے وقت پہ بیچی، خریدار نے قیمت ادا نہیں کی 8 ماہ ہو گئے ہیں، اب جب وہ قیمت ادا کرنے لگا ہے تو بیچنے والا کہتا ہے کہ مجھے اب 10 لاکھ نہیں چاہیئے، بلکہ 14 لاکھ لونگا، کیونکہ تمہاری وجہ سے میرے پیسے پھسے رہے، ورنہ میں کاروبار میں لگا کر پیسے ڈبل کر لیتا، اور اب زمین کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔
پوچھنا یہ ہے کہ بیچنے والے کے لیے 8 ماہ انتظار کی وجہ سے 10 کے بجائے 14 لاکھ لینا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کسی چیز کی قیمت کی ادائیگی (payment) میں اپنے وقت مقررہ سے تاخیر کی وجہ سے جو متوقع کاروباری نقصان ہوا ہے، اس کو پورا کرنے کے لیے، اصل قیمت سے اضافی رقم وصول کرنا بلاشبہ سود کے زمرے میں آتا ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (61/4، ط: دار الفکر)
"قولہ لا بأخذ مال في المذہب....و عن أبي یوسف ؒ یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال و عند ھما و باقي الأئمۃ لا یجوز".
المدونۃ الکبری: (18/5)
"و کان ربوا الجاھلیۃ في الدیون أن یکون للرجل علی الرجل الدین فإذا حل قال لہ أتقضی أم تربی فإن قضاہ أخذہ و إلا زادہ في الحق و زادہ في الأجل".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی