سوال:
السلام علیکم، میرا سوال یہ ہے کہ والد صاحب فوت ہو گئے ہیں، ان کے وارثان میں بیوہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، سب شادی شدہ ہیں، نیز اگر ایک بیٹا نافرمان ہے، ماں کا خیال نہیں رکھتا، جبکہ دوسرے دونوں ملک سے باہر ہیں۔
اس ضمن میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) کیا ماں اپنی زندگی میں اس نافرمان بیٹے کو محروم کر سکتی ہے؟
(2) والد کی زرعی سالانہ آمدن کس طرح تقسیم ہو گی، کیا والدہ ساری آمدن خود رکھ سکتی ہیں یا وہ بھی تمام وارثوں میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی؟ نیز رہائشی مکان کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
(3) اگر ایک وارث نے دوسروں سے قرض لیا ہو، اس کی کٹوتی اس کے حصہ میں سے کی جا سکتی ہے؟
جواب: (1) واضح رہے کہ والد کی میراث میں ان کی ساری اولاد کا حق ہے، لہذا مرحوم کی بیوہ کسی وارث کو محروم کرنے کا حق نہیں رکھتی، چاہے ان کا بیٹا واقعی نافرمان ہے، تب بھی ان کا یہ فعل ناجائز وحرام ہے، اس سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے۔
(2) مرحوم کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو آٹھ (8) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو ایک (1)٬ تینوں بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو دو (2) اور بیٹی کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
فیصد کے اعتبار سے تقسیم اس طرح ہوگی:
بیوہ کو % 12.5 فیصد
ہر ایک بیٹے کو % 25 فیصد
بیٹی کو. % 12.5 فیصد ملے گا۔
واضح رہے کہ زرعی زمین کی آمدن اور رہائشی گھر میراث کے مذکورہ بالا شرعی اصولوں کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم کیے جائیں گے۔
اگر تمام ورثاء عاقل اور بالغ ہوں، اور وہ اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اپنی دلی رضامندی سے زرعی زمین کی آمدن والدہ کو دینا چاہیں، تو اس کی بھی اجازت ہے٬ البتہ کسی وارث کی دلی رضامندی کے بغیر اس کے حصے کو لینا شرعا درست نہیں ہے۔
(3) مقروض وارث کی اجازت سے اس کے قرض کی ادائیگی اس کے حصے کی میراث کی رقم سے کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11- 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ...وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن....الخ
مشکوۃ المصابیح: (255/1، ط: سعید)
عن ابی حرۃ الرقاشی عن عمہ قال: قال رسول اللہ ﷺ الا لا تظلموا الا لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ۔
الھندیة: (447/6، ط: دار الفکر)
"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين....ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين۔۔۔ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث"
و فیھا ایضاً: (448/6، ط: دار الفکر)
"وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی