سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک آدمی نے تقریباً 60000 کے بطورِ تجارت کے لیے ماہ محرم میں بکرے لیے، جن کو اس نے بقرا عید پر بیچنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کے پاس ان بکروں کے علاوہ ایک سونے کی انگوٹھی ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اور زکوٰۃ کی فرضیت کا مہینہ شوال ہے۔
کیا زکوة کی ادائیگی میں ان بکروں کو شامل کیا جائے گا؟ اگر شامل کیا جائے گا، تو موجودہ قیمت پر شامل کیا جائے گا یا قیمت خرید پر شامل کیا جائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ مالِ تجارت میں بھی زکوۃ واجب ہوتی ہے۔
صورت مسئولہ میں آپ نے بکروں کو تجارت کی نیت سے خریدا تھا، لہذا آپ سونے کی انگوٹھی اور ان بکروں کی قیمت کو ماہِ شوال میں فرض ہونے والی زکوۃ کے حساب میں قیمتِ فروخت کے اعتبار سے شامل کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (272/2، ط: دار الفکر)
(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة۔۔الخ
و فیه ایضا: (286/2، ط: دار الفکر)
وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه فتح.
الھندیۃ: (175/1، ط: دار الفکر)
ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك....الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی