سوال:
مفتی صاحب ! امام صاحب نے ولیعلمن الله الذین امنو ولیعلمن المنافقین کی جگہ ولیعلمن الله الذین کفروا ولیعلمن المنافقین پڑھا تو نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر امام نماز میں تلاوت کے دوران غلطی سے ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ لے، جس سے اس آیت کے معنی میں شدید بگاڑ پیدا ہوجائے، تو اس سے نماز فاسد ہو جائے گی، لیکن اگر ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھنے سے محض لفظی طور پر بگاڑ پیدا ہو جائے، مگر معنی کے اعتبار سے شدید بگاڑ پیدا نہ ہو، بلکہ اس کی توجیہ ممکن ہو یا وہ لفظ قرآن میں کہیں موجود ہو، تو اس صورت میں نماز واجب الاعادہ نہیں ہوگی۔
صورت مسئولہ میں امام نے "ولیعلمن اللہ الذین آمنوا" کی جگہ "ولیعلمن اللہ الذین کفروا" پڑھا ہے، اس سے اگرچہ لفظی طور پر بگاڑ پیدا ہوگیا ہے، مگر معنی کے اعتبار سے شدید بگاڑ پیدا نہیں ہوا ہے، بلکہ اس کی توجیہ ممکن ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس طرح ایمان والوں کو جان لے گا اسی طرح کافروں کو بھی جان لے گا، پس اس توجیہ کے لحاظ سے اس کے معنی میں تغیر فاحش لازم نہیں آتا، لہذا اس صورت میں نماز ادا ہو جائے گی، اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (80/1، ط: دار الفکر)
ومنہا ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل إن کانت الکلمۃ التی قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرأن لا تفسد صلاتہ۔
رد المحتار: (مطلب مسائل زلة القارى: 630/1، ط: دار الفکر)
"ان الخطاء اما فی الاعراب أی الحرکات والسکون ویدخل فیہ تخفیف المشدد وقصر الممدود وعکسھما أو فی الحروف بوضع حرف مکان اخر، أو زیادتہ أو نقصہ أو تقدیمہ أو تأخیرہ أو فی الکلمات أو فی الجمل کذلک أو فی الوقف ومقابلہ والقاعدۃ عند المتقدمین ان ماغیر المعنی تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک سواء کان فی القرآن أولا۔ الا ما کان من تبدیل الجمل مفصولا بوقف تام وان لم یکن التغییر کذلک فان لم یکن مثلہ فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد ایضاً کھذا الغبار مکان ھذا الغراب، وکذا اذا لم یکن مثلہ فی القرآن ولا معنی لہ کالسرائل باللام مکان السرائر وان کان مثلہ فی القرآن والمعنی بعید ولم یکن متغیرا فاحشا تفسد أیضا عند ابی حنیفۃ و محمد، وھو الاحوط، وقال بعض المشایخ: لاتفسد لعموم البلوی، وھو قول أبی یوسف وان لم یکن مثلہ فی القرآن ولکن لم یتغیر بہ المعنی نحو قیامین مکان قوامین فالخلاف علی العکس، فالمعتبر فی عدم الفساد عند عدم تغیر المعنی کثیراً وجود المثل فی القرآن عندہ والموافقۃ فی المعنی عندھما، فھذہ قواعد الائمۃ المتقدمین، واما المتأخرون کابن مقاتل وابن سلام واسمعیل الزاھد وابی بکر البلخی والھندوانی وابن الفضل والحلوانی، فاتفقوا علی ان الخطأ فی الاعراب لایفسد مطلقاً ولو اعتقادہ کفرا لان اکثر الناس لایمیزون بین وجوہ الاعراب، قال قاضیخان: وما قالہ المتأخرون أوسع وما قالہ المتقدمون أحوط"۔
نجم الفتاوی: (215/2- 216)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی