سوال:
اگر کوئی شخص برطانیہ جاتا ہے اور زیورات یا گھڑی بیچتا ہے، تاکہ زیادہ منافع حاصل کر سکے، لیکن وہاں جاتے ہوئے وہ برطانیہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، جہاں آپ نے قیمتی اشیاء کے بارے میں بتانا ہوتا ہے٬ تو اس کے مطابق کسٹم چارج کیا جاتا ہے٬ وہ اس کو چھپا لیتا ہے یا وہ پکڑا جاتا ہے تو کسٹم چارج سے بچنے کیلئےکہتا ہے کہ یہ ذاتی استعمال کیلئے یا یہ پرانی گھڑی ہے۔
اس معاملے میں چونکہ وہ جھوٹ بولتا ہے یا کسی چیز کو چھپاتا لیتا ہے تو کیا اس کا نفع حلال ہوگا یا حرام ؟
جواب: کسٹم ڈیوٹی سے بچنے کیلئے کسی چیز کو چھپانا (جبکہ قانونی طور پر اس کے بارے میں بتانا ضروری ہو) یا تجارتی سامان (Trading Items) کو ذاتی استعمال کا سامان کہنا دھوکہ دہی٬ غلط بیانی اور جھوٹ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے٬ اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ اس سامان کو جائز طریقے سے فروخت کرنے سے جو نفع حاصل ہو٬ تو محض کسٹم پر جھوٹ بولنے یا قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے خرید و فروخت کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نفع کو حرام نہیں کہا جائے گا٬ بلکہ نفع حلال ہوگا، بشرطیکہ اس کے حرام ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے، لیکن ملکی جائز قوانین کی خلاف ورزی٬ دھوکہ دہی٬ غلط بیانی اور جھوٹ بولنے کا گناہ اپنی جگہ باقی رہے گا٬ اس سے لئے اس عمل سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1972، ط: دار الغرب الإسلامي)
"وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا كذب العبد تباعد عنه الملك ميلا من نتن ما جاء به"
و فیہ ایضا: (رقم الحدیث: 1315، ط: دار الغرب الإسلامي)
"عن أبي ہریرة رضي اللّہ عنہ قال: من غش فلیس منا"
مرقاة المفاتيح: (رقم الحدیث: 2783، ط: دار الفكر، بيروت)
وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: «قيل: يا رسول الله: أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور» ". رواه أحمد.
(وعن رافع بن خديج قال: قيل: يا رسول الله أي الكسب) : أي أنواعه (أطيب) ؟ أي أحل وأفضل (قال: " عمل الرجل بيده) ، أي من زراعة أو تجارة أو كتابة أو صناعة (وكل بيع مبرور)..... والمراد بالمبرور أن يكون سالما من غش وخيانة"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی