سوال:
مفتی صاحب ! میرے دادا اور دادی بہت پہلے انتقال کر گئے تھے، ان کے 3 بچے (ایک بیٹی اور دو بیٹے) تھے، دادا اور دادی کے انتقال کے بعد ایک بیٹا فوت ہوا، پھر میرے والد کا انتقال ہوا، پھر بیٹی کا انتقال ہوگیا۔ 1 بیٹا اور بیٹی غیر شادی شدہ تھے۔ میرے والد نے اپنی بیوہ اور 3 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ان کے پاس ایک مکان تھا، جو سب سے پہلے دادا کے نام پر کرائے کی بنیاد پر تھا، پھر میرے والد نے رقم ادا کی اور وہ مکان خرید لیا، جو پھر میرے والد کے نام منتقل ہوگیا۔ اب ہم اسے بیچنا چاہتے ہیں، برائے مہربانی ہمیں بتائیں کہ اس گھر پر تقسیم کا تناسب کیا ہے؟
جواب: مرحومین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو ایک ہزار اسّی (1080) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو نوے (90) اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو تین سو تیس (330) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو
بیوہ کو % 8.33 فیصد
ہر ایک بیٹی کو % 30.55 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11)
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ.... الخ
و قولہ تعالی: (النساء، الآیۃ: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.... الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی