سوال:
مفتی صاحب ! کیا میں اپنی بیوی کی بیٹی کے لیے ایک تہائی کی وصیت کر سکتا ہوں؟ اور اگر میں نے وصیت نہیں کی تو کیا میرے مرنے کے بعد میرے وارث اس بچی کو اپنی رضامندی سے میری میراث میں سے کچھ دے سکتے ہیں؟
یا اگر میں اس بچی کے لیے 30 فیصد کی وصیت کر جاؤں تو میرے دوسرے وارثوں کے لیے 70 فیصد بچے گا، تو اس میں کوئی گناہ کی بات تو نہیں ہے؟ نیز کیا اس بچی کے لیے وصیت کرنے کے لیے دیگر وارثوں کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا؟
جواب: 1) واضح رہے کہ سوتیلے باپ کی میراث میں سوتیلی بیٹی کا حصہ نہیں ہوتا ہے، لہذا وارث نہ ہونے کی وجہ سے سوتیلی بیٹی کے لیے ایک تہائی مال میں وصیت کی جاسکتی ہے اور یہ وصیت موصی ( وصیت کرنے والے) کے مرنے کے بعد نافذ ہوگی۔
2) اگر سوتیلا باپ اپنی سوتیلی بیٹی کے لیے زندگی میں وصیت نہ کرسکے تو باپ کے مرنے کے بعد تمام عاقل بالغ ورثاء یا ان میں سے بعض اگر اپنے حصہ میں سے میت کی سوتیلی بیٹی کو اپنی رضامندی سے کچھ دینا چاہیں، تو دے سکتے ہیں۔
3) وصیت پر دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانا مستحب ہے، لہذا اپنی سوتیلی بیٹی کے لیے وصیت کے بارے میں اپنی اولاد کو مطلع کردیں، تاکہ بعد میں اختلاف کی وجہ سے کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسیر مدارک التنزیل للنسفی: (227/1، ط: دار الکلم الطیب)
وانما امر بکتابۃ الدین لان ذلک اوثق وآمن من النسیان وابعد من الجحود والمعنی اذا تعاملتم بدین مؤجل فاکتبوہ والامر للندب.
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2744، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، حدثنا زكرياء بن عدي، حدثنا مروان، عن هاشم بن هاشم، عن عامر بن سعد، عن أبيه رضي الله عنه، قال: مرضت، فعادني النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن لا يردني على عقبي، قال: «لعل الله يرفعك وينفع بك ناسا»، قلت: أريد أن أوصي، وإنما لي ابنة، قلت: أوصي بالنصف؟ قال: «النصف كثير»، قلت: فالثلث؟ قال: «الثلث، والثلث كثير أو كبير»، قال: فأوصى الناس بالثلث، وجاز ذلك لهم.
الھندیۃ: (90/6، ط: دار الفکر)
تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی