سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! آج کل 1 ایپلیکیشن ہے، جس کا نام Snack Video ہے، اس سے لوگ پیسے کماتے ہیں، اس پر کسی کو invite کرنے پر بھی پیسے ملتے ہیں اور ویڈیو دیکھنے پر بھی coin ملتے ہیں، پھر وہ پیسوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور ویڈیو اپلوڈ کرنے پر بھی پیسے ملتے ہیں تو پوچھنا یہ ہے کہ اس Application سے پیسے کمانا جائز ہے یا نہیں، جب کہ اس میں ہر قسم کی ویڈیو ہوتی ہیں اسلامک بھی اور فحاش بھی؟
اور اگر کوئی اس سے پیسے کما چکا ہے اور پیسے اس کے پاس ہیں، ابھی خرچ نہیں کیے، تو ان پیسوں کا کیا کیا جائے، کیا ان پیسوں سے قرضہ اتار سکتے ہیں یا کسی غریب کو بغیر ثواب کی نیت سے دے دیے جائیں؟
جواب: دستیاب معلومات کے مطابق اسنیک ویڈیو (Snack Video) ایپلی کیشن بھی دورِ حاضر میں بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا ایک انتہائی خطرناک فتنہ ہے، اس ایپ کا شرعی نقطہ نظر سے استعمال متعدد مفاسد کی بنا پر ناجائز ہے، اس کے چند مفاسد درج ذیل ہیں:
1۔۔ اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی ہوتی ہے، جو شرعاً حرام ہے۔
2۔۔اس میں عورتیں بے ہودہ ویڈیو بناکر پھیلاتی ہیں۔
3۔۔ نامحرم کو دیکھنے کا گناہ۔
4۔۔ میوزک اور گانے کا عام استعمال ہے۔
5۔۔ مرد و زن ناچ گانے پر مشتمل ویڈیو بناتے ہیں۔
6۔۔ فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔
7۔۔ وقت کا ضیاع اور لہو و لعب ہے۔
8۔۔ اس میں دوسرے کے مذاق اڑانے اور استہزا پر مشتمل ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔
9۔۔ نوجوان بلکہ بوڑھے بھی پیسے کمانے کی لالچ میں طرح طرح کی ایسی حرکتیں کرتے ہیں، جنہیں کوئی سلیم الطبع شخص گوارا تک نہ کرے۔
یہ سب شرعاً ناجائز امور ہیں، اور اس ایپ کو استعمال کرنے والا لامحالہ ان گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس سے بچنا تقریباً ناممکن ہے، لہذا اس ایپلی کیشن کا استعمال جائز نہیں ہے، اور اس کے ذریعے پیسے کمانا بھی جائز نہیں ہے۔
(ماخذہ: فتاوی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر : 144210201096)
جہاں تک اس کے ذریعے حاصل ہونے والی کمائی کا تعلق ہے٬ تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ کمائی صرف ان جائز امور پر مشتمل ویڈیوز کی وجہ سے حاصل ہو٬ تو ایسی کمائی حلال ہوگی٬ لیکن اگر ان وڈیوز پر چلائے جانے والے اشتہارات کے عوض کمائی حاصل ہو٬ تو اس کا حکم یہ ہے کہ جائز اشتہارات کے عوض حاصل ہونے والی کمائی جائز ہے٬ لیکن ناجائز امور جیسے خواتین کی تصاویر٬ ویڈیو یا میوزک وغیرہ پر مشتمل اشتہارات اور ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات کی کمائی ناجائز ہے٬ نیز مروجہ اشتہارات میں عموماً اس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا٬ بلکہ ناجائز اشتہارات بکثرت چلائے جاتے ہیں٬ اس لئے حتی الامکان اشتہارات والی آمدن کو ذریعہ معاش بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اور جو آمدنی حرام ذریعہ سے حاصل ہو، اس سے جان چھڑانے کے لیے بلا نیت ثواب صدقہ کر دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقہ البیوع: (325/1، ط: مکتبۃ المعارف)
"ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لاتخلو من محظور شرعي، وعامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة من مشاهدة الأفلام والبرامج الممنوعة، إن كان هناك من لا يقصد به ذلك. فبما أن غالب استعماله في مباح ممكن فلا نحكم بالكراهة التحريمنية في بيعه مطلقا، إلا إذا تمحض لمحظور، ولكن نظرا إلى أن معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية . وعلى هذا فينبغي أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة له في الحالة الراهنة إلا إذا هيأ الله تعالی جوا يتمحض أو يكثر فيه استعماله المباح"
الموسوعة الفقهية الكويتية: (290/1، ط: وزارة الأوقاف و الشئون الإسلامية)
"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة . ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولا يجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها ، ولا على حمل الخنزير".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی