سوال:
مفتی صاحب ! کوئی چیز خریدنے کے لیے ہم بیعانہ (token money) دیتے ہیں، کیا یہ دینا جائز ہے؟ یہاں ایک مصری نے مجھے بتایا کہ یہ حرام ہے، لیکن ہمارے ملک میں تمام سودے بیعانہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمایں۔ شکریہ
جواب: خرید و فروخت کا معاملہ طے ہوجانے کے بعد خریدار سے بیعانہ (Token Money) کے نام سے مخصوص رقم لینا شرعا درست ہے٬ لیکن اگر بعد میں کسی وجہ سے معاملہ کینسل ہوجائے٬ تو بیعانہ کی رقم خریدار کو واپس کرنا شرعا ضروری ہے٬ اسے ضبط کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
إعلاء السنن: (6026/12)
"قال الموفق فی"المغنی" العربون فی البیع ھو ان یشتری السلعۃ ۔۔۔ فیدفع الی البائع درھما او غیرہ علی انہ اخذ السلعۃ احتسب بہ من الثمن والم یاخذھا فذالک للبائع۔۔۔۔ وقال ابو الخطاب (من الحنابلۃ ) : انہ لایصح، وھو قول الشافعی و اصحاب الرای"
فقه البیوع: (113/1، ط: مکتبہ معارف القرآن)
العربون والعربان : بیع فسرہ ابن منظور بقولہ:" ھو ان یشتری السلعۃ ویدفع الی صاحبھا شیئا یلی انہ ان امضی البیع جائز حسب من الثمن، وان یمض البیع، کان لصاحب السلعۃ، ولم یرتجعہ المشتری۔
واختلف الفقہاء فی جواز العربون: فقال الحنفیۃ والمالکیۃ واشافعیۃ وابو الخطاب من الحنابلۃ : انہ غیر جائز".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی