سوال:
السلام عليكم، مفتی صاحب ! عرض یہ ہیکہ آج کل مارکیٹ میں کاروبار کی نوعیت یہ ہے کہ زید نے عمرو کو کچھ مال فروخت کیا، ابھی مال گودام ہی میں ہے کہ عمرو نے آگے بکر کو ادھار پر فروخت کردیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر مشتری اول یعنی عمرو اپنا کوئی وکیل بھیج دے کہ جاؤ جاکر گودام میں مال دیکھ آؤ کہ پورا ہے یا نہیں اور بائع سے کہدے کہ میں بندہ بھیج رہاہوں، وہ مال اپنی تحویل میں لے لے گا، تو وکیل کا اس طرح جانا قبضہ شمارہوگا؟
جواب: مذکورہ صورت میں جب عمرو کا وکیل مال اپنے قبضہ میں لے لے٬ تو وکیل کا قبضہ چونکہ موکل کا قبضہ شمار ہوتا ہے٬ لہذا وکیل کی طرف سے مال پر قبضہ کر لینے کے بعد عمرو کیلئے اس مال کو آگے فروخت کرنا شرعا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المحيط البرهاني: (204/7، ط: دار الكتب العلمية)
لأن قبض الوكيل بمنزلة قبض الموكل من حيث إن الوكيل في القبض عامل للموكل.
ألا ترى أنه لو هلك في يد الوكيل كان بمنزلة ما لو هلك في يد الموكل فكأنها كسدت في يد الموكل
بدائع الصنائع: (180/5، ط: رشیدیة)
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی