سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اگر کوئی ایسا مرض ہو، جس سے شفا کی امید نہ ہو یا ایسی حالت پیدا ہوجائے، جیسے: کسی عورت کے چار دفعہ آپریشن کے ذریعے بچہ پیدا ہو، اب ساری زندگی حاملہ ہونا اس کے لئے خطرناک ہے، اس میں اس کو جان کا بھی خطرہ ہے، کیا اس صورت میں بھی مستقل برتھ کنٹرول کا طریقہ کار استعمال نہیں کیا جاسکتا؟
موجودہ علم طب کے مطابق چار دفعہ آپریشن کے ذریعے ولادت ہو جانے کے بعد بچہ دانی اسقدر کمزور ہو جاتی ہے کہ حمل کو برداشت نہیں کر سکتی، یعنی اس صورت میں حمل ہونے کے بعد پیچیدگیوں کا خطرہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ماں کی جان کو خطرہ ہوتا ہے تو اس صورت میں کیا مستقل برتھ کنٹرول کا طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے یا بار بار غیر مستقل طریقہ ہی اختیار کیا جائے؟ جزاک اللہ خیر
جواب: بلا عذر فیملی پلاننگ کرنا اسلام میں منع ہے اور ایسی صورت اختیار کرنا جس سے قوت تولید بالکلیہ ختم ہوجائے، مثلاً : رحم (بچہ دانی) نکال دینا یا حتمی نس بندی کرادینا وغیرہ حرام ہے، کیونکہ اس میں اللہ کی پیدا کی ہوئی جسمانی اعضاء میں تخلیقی حیثیت کو بالکلیہ ختم کرنا ہے، جو کہ حرام اور ممنوع ہے۔
یاد رکھیے ! صحت اور بیماری اللہ کی طرف سے ملتی ہے، اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سےاس زندگی میں بظاہر کچھ راحت ملے گی، مگر آخرت کی تکلیف سخت ہوگی۔
ہاں ! کسی واقعی عذر، بیماری، شدید کمزوری، دوسرے بچے کو خطرہ یا ماں کی جان کو خطرہ ہو، تو ایسی صورتوں میں بضرورت ایسی مانع حمل تدبیروں کو اپنانے کی گنجائش ہے، جو وقتی ہوں اور جب چاہیں انہیں ترک کرکے توالد اور تناسل کا سلسلہ جاری کیا جا سکتا ہو۔
چنانچہ مذکورہ عورت کے لیے بچہ دانی نکال دینا یا بالکلیہ بند کروادینا تو جائز نہیں ہے، البتہ اگر آئندہ ولادت کی وجہ سے اپنی جان اور صحت کو خطرہ ہو تو ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا کہ حمل ہی نہ ٹہرے، جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (357/5، ط: دار الفکر)
خصاء بني آدم حرام بالاتفاق
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (274/11، ط: دار السلاسل)
وقال ابن حجر في الفتح نقلا عن الطبري: لا يجوز للمرأة تغيير شيء من خلقتها التي خلقها الله عليها بزيادة أو نقص
رد المحتار: (176/3، ط: دار الفکر)
وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. اه. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح وبه جزم القهستاني أيضا حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها. اه. لكن قول الفتح فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی