سوال:
ایک سادہ مکان خریدا گیا جس کے پیسے میرے بڑے تایا نے ادا کیے پھر اس کو میرے دادا کے نام کیا، مکان کی دو منزلہ تعمیر باقی تین بھائیوں نے مشترکہ طور پر کی جن کی نیت مکان پر رقم لگاتے وقت واضح نہیں تھی کہ آیا قرض ہے یا ہبہ ہے۔
مسئلہ یہ پیش آیا کہ تایا اور ایک بھائی کے انتقال کے بعد گھر کی تقسیم کا ذکر ہوا اب دو بھائی جو حیات ہیں وہ کہتے ہیں کہ مکان مکمل طور پر بڑے بھیا کے پیسوں کا تھا جبکہ ایک بہن یہ کہتی ہیں کہ مکان خریدنے میں ان کا اور بھتیجی کا زیور بھی لگا ہے، اس معاملے کا کوئی کاغذی ثبوت نہیں ہے اور یہ نصف صدی قبل کا واقع ہے۔ براہ مہربانی کچھ رہنمائی فرمائیں کہ یہاں کس کی بات مانی جائے گی؟
تنقیح:
اس سوال کے جواب کے لئے درج ذیل امور کی وضاحت مطلوب ہے:
1) باقی تین بھائیوں سے کس کے بھائی مراد ہیں؟ اسی تایا کے بھائی یا سائل کے اور انہوں نے رقم کس وجہ سے لگائی، کسی کی رہائش کے لئے یا بیچنے کے لئے یا کوئی اور مقصد تھا؟ نیز بڑے بھائی کی رقم تعمیر میں شامل تھی یا نہیں؟
2) "ایک سادہ مکان خریدا گیا" اس جملے سے کیا مراد ہے خالی زمین تھی یا باقاعدہ گھر تھا؟ اور دادا کے نام کرنے کے بعد دادا کے قبضے میں دیا تھا یا نہیں؟ نیز یہ مکان کس ضرورت کے تحت خریدا گیا؟
3) جس بھائی کا انتقال ہوا ہے وہ کون سے ہیں اور یہ کل کتنے بھائی ہیں؟ ان کے والدین حیات ہیں یا ان کاانتقال ہوا ہے؟
4)بھتیجی سے کون مراد ہے یہ کس بھائی کی بیٹی ہے اور اس نے اتنا عرصہ کیوں دعوی نہیں کیا؟
جواب تنقیح:
میرے دادا کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جب یہ لوگ کراچی آئے تو دادا دادی سب سے بڑے بیٹے اور ان کے بیوی بچے آئے تھے، دوسرے نمبر کے بیٹے لاپتہ ہوگئے تھے وہ کبھی پاکستان نہیں آئے، ان کے بارے میں اطلاع ملی تھی کہ مار دیئے گئے، البتہ ان کی بیوہ اور دو بچیاں بعد میں پاکستان آئے
دادا کی باقی اولاد اس وقت غیر شادی شدہ تھی۔
جب پاکستان میں ایک مکان خریدا گیا اس وقت دادا دادی بڑے بھائی دونوں بہنیں اور دونوں چھوٹے بھائی موجود تھے، دادا ریٹائرڈ تھے اور ان کے پاس کچھ بھی رقم نہیں تھی، دونوں بھائی بھی خالی ہاتھ تھے۔
گھر صرف گراؤنڈ پر بنا ہوا تھا اور دونوں چھوٹے بھائیوں کا کہنا ہے کہ یہ مکمل بڑے بھائی کے پیسوں سے لیا گیا تھا جس کو سربراہ ہونے کے ناطے دادا کے نام کردیا گیا۔
گھر خریدنے کے کئی سال بعد تیسرے نمبر کے بھائی پاکستان آگئے اس وقفہ میں دوسرے نمبر والے بھائی کی دونوں بچیاں بھی دادا کے پاس آگئی تھیں ان کی والدہ نے دوسرا نکاح کرلیا تھا دونوں چھوٹے بھائی گھر کی کفالت محنت مزدوری کرکے کرتے رہے بڑبے بھائی اپنے بال بچوں کے کفیل تھے۔
تیسرے بھائی جو بعد میں پاکستان آئے ان کی شادی کے وقت گھر کی توسیع کا فیصلہ ہوا، ہاؤس بلڈنگ سے قرض لیا گیا اور اس کی قسطیں تمام چار بھائی ادا کرتے رہے اس کے علاوہ گھر کے جملہ مرمت کے کاموں میں بھی پیسے لگاتے رہے۔
واضح رہے کہ ان خرچوں کے معاملات کا کوئی کاغذی ثبوت نہیں ہے کچھ بھی لکھا نہیں گیا، سب کی شادیاں ہوگئیں، ان سب میں سب سے زیادہ چھوٹے دونوں بھائیوں نے مالی تعاون کیا، دادا دادی کے انتقال کے بعد دونوں چھوٹے بھائی اپنے الگ مکان لے کر الگ ہوگئے اور پھر رہ جانے والے دونوں بھائیوں کے بچوں میں اختلافات بڑھنے لگے۔
کچھ دینی احکامات سے لا علمی تھی اور کچھ روزگار کی بھاگ دوڑ چاروں بھائیوں کے درمیان وقت پر گھر کے متعلق کوئی فیصلہ نہ ہو سکا، اب صورتحال یہ ہے کہ متنازعہ گھر میں رہنے والے دونوں بڑے بھائیوں کا انتقال ہوگیا ان میں سے ایک بھائی جو گھر کی خریداری کے بعد پاکستان آئے تھے ان کے اکلوتے بیٹے نے گھر کی تقسیم کے لیے عدالت میں مقدمہ کردیا ہے.
اس ضمن میں اس نے اس بات کو بنیاد بنایا ہے کہ گھر چونکہ دادا کے نام پر ہے تو تقسیم قانونی وارثین میں ہونی چاہیے۔
دادا کی دونوں بیٹیوں میں سے چھوٹی بیٹی جو اب فوت ہوچکی ہیں کا کہنا تھا کہ ان کا گھر میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ ان کے والد کی اس میں کوئی رقم نہیں.
دادا کی بڑی بیٹی حیات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ گھر کی خریداری میں ان کے کچھ سونے کے زیورات بھی بکے ہیں اور لاپتہ بھائی کی یتیم بچیوں کے بھی کچھ زیورات جن مقدار کچھ خاص نہیں، واضح رہے کہ ان کی تفصیل کا کوئی گواہ اب حیات نہیں، ان بہنوں اور بھتیجی کی کفالت اور شادی بیاہ سب میں دونوں چھوٹے بھائیوں کا بڑا ہاتھ تھا، دونوں بھائی جو حیات ہیں ان کا کہنا ہے کہ گھر بڑے بھائی کا ہے اور وہ اس میں سے کوئی حصہ نہیں لیں گےجب کہ باقی دعوے دار حصہ کے طلبگار ہیں بنیاد اس کی یہ بتاتے ہیں کہ گھر دادا کے نام پر ہے، حالانکہ دادا کے نام کرنے کے باوجود ہبہ مکمل نہیں ہوا تھا، دادا کی چھوٹی بیٹی کے وارثین ماں کی وصیت کے مطابق اس بات پر متفق ہیں کہ گھر سے کوئی حصہ نہیں لیں گے۔
اس ضمن میں چند سوالات کے جوابات درکار ہیں:
١) دادا کی بڑی بیٹی کے دعویٰ کہ مکان خریدنے میں ان کا اور یتیم بھتیجی کا کچھ زیور شامل ہے اس کا تصفیہ شرعی طور پر کیسے ہوگا؟
٢) دونوں چھوٹے بھائی جو مکان خریدتے وقت موجود تھے ان کی یاداشت کے مطابق بہن کا دعویٰ جائز نہیں، حالانکہ ان بھائیوں کی نیت کسی کا جائز حق مارنے کی ہرگز نہیں ہے جبکہ وہ اس بہن اور بھتیجی کی کفالت اور شادی بیاہ کے اخراجات بخوبی نباہ چکے ہیں، کیا یہ بھائی غلطی پر ہیں؟
٣) گھر کی تقسیم کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے قانونی بنیاد پر ممکنہ طور پر تقسیم کا حکم دیا جاسکتا ہے کیونکہ گھر دادا کے نام ہے، دونوں چھوٹے بھائی بڑے بھائی کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں، سوال کرنے کا مقصد شرعی طور پر اس پیچیدہ مسئلہ پر رہنمائی درکار ہے کہ مکان کی ملکیت میں اختلاف کی صورت میں کس کی بات معتبر ہوگی؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں دادا کے ورثاء میں تین فریق ہیں:
1) مرحوم بھائی کا بیٹا جو اس بنیاد پر دعویٰ کررہا ہے کہ یہ مکان دادا کا ہے اور میں دادا کا وارث ہوں تو مجھے حق ملنا چاہیے۔
2) بڑی بہن جن کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے اور لاپتہ بھائی کی دونوں بچیوں کے زیورات کی کچھ رقم لگی ہے۔
3) تیسرے وہ ورثاء جن کا یہ ماننا ہے کہ یہ گھر بڑے تایا کے پیسوں کا ہے (یعنی دونوں چھوٹے بھائی اور مرحوم بہن)۔
لہٰذا مذکورہ معاملہ میں مرحوم بھائی کا مذکورہ بیٹا اور بڑی بہن مدّعی ہیں اور دونوں چھوٹے بھائی چونکہ ان کے دعویٰ کا انکار کررہےہیں، اس لئے وہ منکر (مدّعیٰ علیہ) ہیں، البتہ دونوں مدّعیان کے دعووں کی نوعیت مختلف ہے، اس لئے ہر ایک کی مستقل تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے:
مرحوم بھائی کا بیٹا چونکہ اس بات کا دعویٰ کررہا ہے کہ یہ مکان دادا کے نام پر ہونے کی وجہ سے ان کی ملکیت ہے، لہٰذا انہیں قاضی کے سامنے اور عدالت میں حاضر ہوکر سب سے پہلے شریعت کی رو سے ان کے سامنے یہ بات گواہوں سے ثابت کرنی ہوگی کہ یہ مکان تایا نے خرید کر دادا کے نام کرانے کے بعد ان کو باقاعدہ مالکانہ اختیارات کے ساتھ ہبہ (گفٹ) کرکے قبضہ دیا تھا، کیوںکہ یہ مکان صرف اسی صورت میں شرعاً دادا کا ہوسکتا ہے کہ تایا نے باقاعدہ ہبہ کرکے ان کے قبضہ میں دیا ہو، اور اگر صرف نام کروایا ہو اور باقاعدہ مالکانہ اختیارات انہیں نہ دیئے ہوں، خود تصرف کرتے رہے ہوں تو اس سے ملکیت نہیں آسکتی، جبکہ مذکورہ سوال کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مکان دادا کے صرف نام پر کیاگیا، مزید کوئی وضاحت نہیں ہے۔ چنانچہ اگر وہ گواہوں سے اپنی بات ثابت کرلے تو اس کے حق میں فیصلہ دیا جائے گا اور اگر مرحوم بھائی کے بیٹے کے پاس گواہ نہ ہوں تو پھر مدّعیٰ علیہم (دونوں چھوٹے بھائیوں) سے اس طرح قسم لی جائے گی کہ "اللہ کی قسم انہیں معلوم نہیں ہے کہ مکان دادا کو ہبہ کیا گیا تھا"، چنانچہ اگر وہ قسم اٹھالیں تو ان کی بات کے مطابق فیصلہ ہوگا، لیکن اگر وہ قسم کھانے سے انکار کریں تو قاضی مدّعی (مرحوم بھائی کے بیٹے) کی بات کے مطابق فیصلہ دے گا۔
دوسرا دعویٰ بڑی بہن کا ہے جو کہ اِس مکان میں اپنے اور لاپتہ بھائی کی بچیوں کے زیور کی رقم شامل ہونے کی بنیاد پر مالکانہ حصے كی دعویدار ہیں، لہٰذا یہ خاتون قاضی کے سامنے جاکر اپنا یہ دعویٰ پیش کرے گی، جس کے فیصلے کی شرعی لحاظ سے بالترتیب تین صورتیں ہیں:
﴿الف﴾ خاتون چونکہ مدّعی ہیں، اس لئے سب سے پہلے انہیں گواہوں سے اپنا دعویٰ ثابت کرنا ہوگا.
﴿ب﴾ اگر ان کے پاس گواہ نہ ہوں تو پھر دوسرے فریق (یعنی مدّعیٰ علیہ) سے قاضی اس بات کی قسم لے گا کہ " اللہ کی قسم ہمیں اسکی اس ملکیت کا علم نہیں ہے"۔ چنانچہ گواہوں کی گواہی یا مدعی علیہم کی قسم کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔
﴿ج﴾ اگر مدعی علیہم قسم اٹھانے سے انکار کریں تو اس خاتون کا دعویٰ درست مانا جائے گا اور اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سوال میں یہ کہا گیا ہے کہ اس تمام واقعہ کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے، لہٰذا اگر مرحوم بھائی کے بیٹے اور مرحوم بہن میں سے ہر ایک نے بغیر کسی عذر کے اتنا لمبا عرصہ (جس کی انتہائی مدّت مفتی بہ قول کے مطابق فقہاء کرام نے چھتیس سال مقرر کی ہے) گذر جانے تک کبھی ایک مرتبہ بھی دعویٰ نہیں کیا (دادا اور بھائیوں کی زندگی میں اور ان کے انتقال کے بعد) تو اب ان کا دعویٰ قابلِ سماعت نہیں ہے، تاہم اس سے دیانۃً ان کا حق ختم نہیں ہوگا، اس لئے ورثاء کو چاہیے کہ آپس میں تصفیہ کرکے تمام حقداران کو خوش اسلوبی کے ساتھ ان کا حق دے دیں اور اختلافات اور جھگڑوں سے اجتناب کریں۔
نوٹ: یہ جواب سوال اور اس کی تنقیح میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق تحریر کیا گیا ہے، جس کی کوئی ذمہ داری مفتی پر نہیں ہے، اگر اس میں کوئی اور تفصیل ہو تو وہ وضاحت کے ساتھ لکھ کر دوبارہ سوال ارسال کیا جائے، ان شاء اللہ اس کی روشنی میں جواب دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (4 / 3، ط: دار الفکر )
(وأما حكمها) فاستحقاق الجواب على الخصم بنعم أو لا فإن أقر ثبت المدعى به وإن أنكر يقول القاضي للمدعي: ألك بينة فإن قال: لا يقول لك يمينه ولو سكت المدعى عليه ولم يجبه بلا أو نعم فالقاضي يجعله منكرا حتى لو أقام المدعي البينة تسمع كذا في محيط السرخسي.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (4 / 249، ط: دار الجیل)
الحكم الثاني - يكون أحد الورثة أو الوصي خصما في الدعوى التي تقام على الميت سواء كانت الدعوى عينا أو دينا.
وفيها: (4 / 203)
إذا كان المدعى به عينا سواء كان منقولا أو كان عقارا فلا يلزم حين الادعاء به بيان سبب ملكيته بل تصح دعوى الملك المطلق بقول المدعي: هذا المال لي ولا يجب سؤال المدعي هل ملكت هذا المال شراء أو إرثا (البحر).
وفيها: (4 / 253)
وإذا ادعى المدعي دعواه في حضور وارث واحد وأنكر الوارث المدعى عليه الدين وعجز المدعي عن الإثبات فيحلف كل وارث على حدة على كونهم لا يعلمون بأن الميت مدين للمدعي بذلك المبلغ أو بأقل منه ولا يسقط اليمين عن باقي الورثة بحلف بعض الورثة؛ لأن الناس يتفاوتون في اليمين ولأن الوارث يستحلف على العلم وربما لا يعلم الأول بدين الميت ويعلم الثاني (الخانية) . وإذا كان بعض الورثة صغيرا أو غائبا فيحلف الصغير عند بلوغه والغائب عند حضوره (الهندية) .
حاشية ابن عابدين: (5 / 422، ط: دار الفکر)
ترك الدعوى من التمكن يدل على عدم الحق ظاهرا اه وفي جامع الفتوى عن فتاوى العتابي قال المتأخرون من أهل الفتوى: لا تسمع الدعوى بعد ست وثلاثين سنة إلا أن يكون المدعي غائبا أو صبيا أو مجنونا وليس لهما ولي أو المدعى عليه أميرا جائرا اه. ونقل ط عن الخلاصة لا تسمع بعد ثلاثين سنة اه.
وفيها: (5 / 419)
القضاء مظهر لا مثبت ويتخصص بزمان ومكان وخصومة....(قوله: فلا تسمع الآن بعدها)...
(قوله: إلا في الوقف والإرث ووجود عذر شرعي) استثناء الإرث موافق لما مر عن الحموي ولما في الحامدية عن فتاوى أحمد أفندي المهمنداري مفتي دمشق أنه كتب على ثلاثة أسئلة أنه تسمع دعوى الإرث ولا يمنعها طول المدة...... الثالث: عدم سماع القاضي لها إنما هو عند إنكار الخصم فلو اعترف تسمع كما علم مما قدمناه من فتوى المولى أبي السعود أفندي؛ إذ لا تزوير مع الإقرار.
الدر المختار: (5 / 553، ط: دار الفكر)
(كذا إذا ادعى دينا أو عينا على وارث إذا علم القاضي كونه ميراثا أو أقر به المدعي أو برهن الخصم عليه) فيحلف على العلم.
الفتاوى الهندية: (4 / 17، ط: دار الفكر)
وإن ادعى عليه دينا بسبب القرض أو بسبب الشراء أو ادعى ملكا بسبب البيع أو الهبة أو ادعى غصبا أو عارية يستحلف على حاصل الدعوى في ظاهر رواية أصحابنا - رحمهم الله تعالى - ولا يستحلف على السبب.
رد المحتار للشامي: (5 / 420، ط: دار الفكر)
الإرث غير مستثنى فلا تسمع دعواه بعد هذه المدة، وقد نقل في الحامدية عن المهمنداري أيضا أنه كتب على سؤال آخر فيمن تركت دعواها الإرث بعد بلوغها خمس عشرة سنة، بلا عذر أن الدعوى لا تسمع إلا بأمر سلطاني ونقل أيضا مثله فتوى تركية عن المولى أبي السعود، وتعريبها إذا تركت دعوى الإرث بلا عذر شرعي خمس عشرة سنة، فهل لا تسمع؟ الجواب: لا تسمع اه اعترف الخصم بالحق، ونقل مثله شيخ مشايخنا التركماني عن فتاوى علي أفندي مفتي الروم ونقل مثله أيضا شيخ مشايخنا السائحاني عن فتاوى عبد الله أفندي مفتي الروم، وهذا الذي رأينا عليه عمل من قبلنا، فالظاهر أنه ورد نهي جديد بعدم سماع دعوى الإرث، والله سبحانه أعلم.
الأول: قد استفيد من كلام الشارح أن عدم سماع الدعوى بعد هذه المدة إنما هو للنهي عنه من السلطان فيكون القاضي معزولا عن سماعها … وسبب النهي قطع الحيل والتزوير، فلا ينافي ما في الأشباه وغيرها من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان اه…..الثاني: أن النهي حيث كان للقاضي لا ينافي سماعها من المحكم، بل قال المصنف في معين المفتي: إن القاضي: لا يسمعها من حيث كونه قاضيا فلو حكمه الخصمان في تلك القضية التي مضى عليها المدة المذكورة، فله أن يسمعها.
الثالث: عدم سماع القاضي لها إنما هو عند إنكار الخصم فلو اعترف تسمع ...الرابع: عدم سماعها حيث تحقق تركها هذه المدة فلو ادعى في أثنائها لا يمنع بل يسمع دعواه ثانيا ما لم يكن بين الدعوى الأولى والثانية هذه المدة، ورأيت بخط شيخ مشايخنا التركماني في مجموعته أن شرطها أي شرط الدعوى مجلس القاضي، فلا تصح الدعوى في مجلس غيره كالشهادة، تنوير وبحر ودرر قال: واستفيد منه جواب حادثة الفتوى وهي أن زيدا ترك دعواه على عمرو مدة خمس عشرة سنة، ولم يدع عند القاضي بل طالبه بحقه مرارا في غير مجلس القاضي، فمقتضى ما مر لا تسمع لعدم شرط الدعوى، فليكن على ذكر منك.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص، کراچی