عنوان: دعا كی قبولیت کا کیا مطلب ہے؟(8449-No)

سوال: اگر کسی کی دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہوں تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟ جبکہ ہر دعا میں عافیت بھی ساتھ مانگی ہوئی ہے۔

جواب: واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ بندہ دعا میں اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی مانگے تو وہ فورا مل جائے، اگر وہ نہیں ملتا تو یہ سمجھے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی ہے اور دعا مانگنا چھوڑ دے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ’’جب تک کوئی بندہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور قبولیت کے معاملے میں جلد بازی نہ کرے، اس کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے۔" عرض کی گئی: اللہ کے رسول! جلد بازی کرنا کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ کہے: میں نے دعا کی اور میں نے دعا کی اور مجھے نظر نہیں آتا کہ وہ میرے حق میں قبول کرے گا، پھر اس مرحلے میں (مایوس ہو کر) تھک جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے‘‘۔(مسلم ،حدیث نمبر:2735)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کی دعا مانگنی جائے اگر وہ نہ ملے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے مایوس ہوکر دعا کرنا نہیں چھوڑنا چاہیے، کیوں کہ انسان کا علم ناقص ہے ،وہ نہیں جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے فائدہ مند ہے اور کیانقصان دہ،کیا چیز بہتر ہے اور کیا بدتر؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو حالاں کہ وہ تمہارے حق میں بری ہو۔(البقرة : ٢١٦)
بسا اوقات بندہ ایسی چیز دعا میں مانگتا ہے جو اس کے لیے مفید نہیں ہوتی ، یا اس کا عطا کرنا حکمتِ الہی کے خلاف ہوتا ہے لیکن دوسری طرف اس کریم ربّ کی شان ِکریمی کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ بندے نے مجھ سے دعا کی تو اس کی دعا رد نہ کی جائے، اس لیے اللہ تعالی کا یہ دستور ہے کہ وہ دعا کرنے والے کو محروم نہیں لوٹاتا ، بشرطیکہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ مانگے، تو اس کی دعا ضرور قبول کرتا ہے، لیکن اس کی تین مختلف صورتیں ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہےکہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’جب کوئی مسلمان دعا کرتا ہے جس میں گناہ یا قطع رحمی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ تین باتوں میں سے ایک اسے ضرور عطا فرماتا ہے۔
(1)یا دعا کے مطابق اس کی خواہش پوری کردی جاتی ہے۔
(2)یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرۂِ اجر بنا دیتا ہے۔
(3)یا دعا کے برابر اس سے کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے(یہ سن کر) عرض کیا:’’تب تو ہم کثرت سے دعا کریں گے۔‘‘ (مسند احمد، رقم الحدیث 11133)
اس ساری تفصیل سے واضح ہوا کہ دعا کرتے وقت آدابِ دعا کا خیال رکھنا چاہیے ،دعا کی قبولیت میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے اور جس چیز کی دعا مانگنی جائے اگر وہ نہ ملے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ خیال کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی ٰ زیادہ بہتر جانتے ہیں، اگر اس دعا میں مانگی ہوئی چیز میرے مفید ہوگی تو اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرمائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 216)
وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ .... الخ

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2735، 2096/14، ط: دار احیاء التراث العربي)
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا يزال يستجاب للعبد، ما لم يدع بإثم أو قطيعة رحم، ما لم يستعجل» قيل: يا رسول الله ما الاستعجال؟ قال: يقول: «قد دعوت وقد دعوت، فلم أر يستجيب لي، فيستحسر عند ذلك ويدع الدعاء.

مسند أحمد،(رقم الحدیث: 11133، 213/17، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي سعيد، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما من مسلم يدعو بدعوة ليس فيها إثم، ولا قطيعة رحم، إلا أعطاه الله بها إحدى ثلاث: إما أن تعجل له دعوته وإما أن يدخرها له في الآخرة، وإما أن يصرف عنه من السوء مثلها " قالوا: إذا نكثر، قال: «الله أكثر»

فتح الباري لابن حجر: (141/11، ط: دار المعرفة)
المعنى أنه يسأم فيترك الدعاء فيكون كالمان بدعائه أو أنه أتى من الدعاء ما يستحق به الإجابة فيصير كالمبخل للرب الكريم الذي لا تعجزه الإجابة ولا ينقصه العطاء وقد وقع في رواية أبي إدريس الخولاني عن أبي هريرة عند مسلم والترمذي لا يزال يستجاب للعبد ما لم يدع بإثم أو قطيعة رحم وما لم يستعجل قيل وما الاستعجال قال يقول قد دعوت وقد دعوت فلم أر يستجاب لي فيستحسر عند ذلك ويدع الدعاء ومعنى قوله يستحسر وهو بمهملات ينقطع وفي هذا الحديث أدب من آداب الدعاء وهو أنه يلازم الطلب ولا ييأس من الإجابة لما في ذلك من الانقياد والاستسلام وإظهار الافتقار حتى قال بعض السلف لأنا أشد خشية أن أحرم الدعاء من أن أحرم الإجابة وكأنه أشار إلى حديث بن عمر رفعه من فتح له منكم باب الدعاء فتحت له أبواب الرحمة الحديث أخرجه الترمذي بسند لين وصححه الحاكم فوهم قال الداودي يخشى على من خالف وقال قد دعوت فلم يستجب لي أن يحرم الإجابة وما قام مقامها من الادخار والتكفير انتهى وقد قدمت في أول كتاب الدعاء الأحاديث الدالة على أن دعوة المؤمن لا ترد وأنها إما أن تعجل له الإجابة وإما أن تدفع عنه من السوء مثلها وإما أن يدخر له في الآخرة خير مما سأل فأشار الداودي إلى ذلك وإلى ذلك أشار بن الجوزي بقوله اعلم أن دعاء المؤمن لا يرد غير أنه قد يكون الأولى له تأخير الإجابة أو يعوض بما هو أولى له عاجلا أو آجلا فينبغي للمؤمن أن لا يترك الطلب من ربه فإنه متعبد بالدعاء كما هو متعبد بالتسليم والتفويض

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 439 Sep 22, 2021
dua ki qabolyat / qaboliyat ka kia hokom / hokum hay?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Azkaar & Supplications

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.