سوال:
مفتی صاحب! ہم 9 بہنیں اور تین بھائی ہیں، سب سے بڑی بہن 2004 میں وفات پا چکی ہے، سوال یہ کہ 1988 یا 89 میں میرے بڑے بھائی نے والد صاحب کے پیسوں سے تقریبا 43 مرلہ زمین لی تھی جس میں سے تقریبا 15 مرلہ بہنوئی کو فروخت کی تھی اور دو مرلہ واپس لی تھی، یہ ہمارے بڑے ہیں ان کی عمر تقریبا 65 سال کے آس پاس ہوگی، والد محترم 2000 میں وفات پاچکے ہیں اور ہم 2 چھوٹے بھائیوں کی عمر اس وقت 14 اور 13 سال کے لگ بھگ تھی. والدہ کی وفات سال 2019 میں ہوئی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ جو زمین ہمارے بڑے بھائی نے مشترکہ پیسوں سے لی ہے، وہ انھوں نے اپنے نام سے لی ہے اور اس پر گھر اور حجرہ بھی بنایا ہوا ہے اور اب وہ ہمیں گھر سے نکالنا چاہ رہا ہے کہ آپ سب گھر سے نکل جائیں، کیونکہ یہ گھر میں نے بنایا ہے اور میرے نام سے ہے ہم تین بہنیں اور دو بھائی اس گھر میں رہ رہے ہیں، حالانکہ یہ ہمارے والد محترم حیات تھے اور ہمیں اپنے پرانے گھر سے 1995 میں یہاں اپنے بڑے بھائی کے کہنے پر لے آئے تھے.
ہماری دو دکانیں تھی وہ بھی بڑے بھائی نے بہ زور بازو قبضہ کی ہوئی ہیں اور کہے رہے ہیں کہ سٹامپ میرے نام سے ہے لہذا یہ میری ہیں۔
پرانا گھر تقریبا 1998 میں 1 لاکھ میں فروخت کیا تھا ان پیسوں کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا، اب کہے رہے ہیں کہ دکانیں میری تھیں والد محترم کی نہیں، پرانے گھر کے پیسوں کا پوچھیں تو کہتے ہیں مجھے نہیں پتہ، اب یہ جو گھر ہے جس میں ہم سب شریک تھے، کیا اس میں ہمارا حصہ ہو سکتا ہے یا یہ سب ان کا ہے؟ یہ تقریبا 24 مرلہ گھر اور 6 مرلہ حجرہ ہے اور ان کے ساتھ ہم دو بھائی جن کی عمریں آج کل تقریبا 39 اور 40 ہے اور بڑے بھائی کی عمر تقریبا 65 کے لگ بھگ اور تین بہنیں ہیں۔
تنقیح:
محترم ! آپ کا سوال واضح نہیں ہے، براہ کرم آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ والد صاحب نے بڑے بیٹے کو کس اعتبار سے رقم دی تھی؟ کیا ہدیتاََ دی تھی یا اپنے لیے زمین خریدنے کے لیے دی تھی؟
نیز مشترکہ پیسوں سے کیا مراد ہے؟ اس میں بھائی کے کتنے پیسے تھے اور والد صاحب کے کتنے پیسے تھے؟
ان باتوں کی وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح:
حضرت اصل میں والد صاحب نے جو رقم جمع کی تھی وہ ان کو زمین کے لیے دیی تھی اور کہا تھا کہ میں نے یہ زمین خریدنے کے لیے جمع کی ہے، ہم سب گھر میں اس وقت مشترک تھے اور والد صاحب گھر کا خرچہ چلا رہے تھے اور ایک گواہ جوکہ میرا بہنوئی ہے وہ کہہ رہے تھے کہ والد محترم اس بات پر ناراض بھی ہوئے تھے کہ میرے بڑے بھائی یعنی ان کے بڑے بیٹے نے زمین اپنے نام کی ہے اور 6 ماہ ان سے بات نہیں کی تھے اور کہا تھا کہ اس زمین میں میرے بھائیوں کا حصہ موجود ہے لیکن میں نے صرف اپنے نام سے اس وجہ سے لی تاکہ ہمارے درمیان جھگڑا نہ ہو اس پر والد راضی ہوگئے تھے۔
جواب: تنقیح اور جواب تنقیح سے معلوم ہوا کہ والد صاحب نے رقم بڑے بیٹے کو صرف مکان خریدنے کے لیے دی تھی، لہذا بڑے بیٹے کا والد کی تمام جائیداد اور دکانوں پر تنہا قبضہ کر کے دوسرے بہن بھائیوں کو والد کی میراث میں سے کچھ نہ دینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں اس پر بڑی وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (کسی کی) بالشت بھر زمین بھی ظلماً لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔ (مشکوٰۃ المصابیح: باب الغصب و العاریة)
دوسری حدیثِ مبارکہ میں ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح: باب الغصب و العاریة)
لہذا بڑے بھائی پر لازم ہے کہ دنیا میں ہی والد مرحوم کے تمام شرعی ورثاء کو شریعت کے مطابق ان کا حق دے دے، ورنہ قیامت میں سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، ص: 254، ط: قدیمي)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين
و فیها ایضاً: (ص: 266، ط: قدیمي)
عن انس قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیه وسلم من قطع میراث وارثه قطع ﷲ میراثه من الجنة یوم القیمة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی