عنوان: اپنے سوتیلے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کرنے کا حکم(8463-No)

سوال: میرے سوتیلے بہن بھائیوں کا مجھ پر کوئی حق ہے یا نہیں؟ اگر میں ان سے کوئی رابطہ نہ رکھنا چاہوں تو شریعت کا اس بارے ميں کیا حکم ہے؟

جواب: واضح رہے کہ اپنے رشتہ دار چاہے سوتیلے ہی کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ صلہ رحمی قائم رکھنا ہر شخص کے ذمہ لازم ہے، ان کے ساتھ احسان اور بھلائی کا سلوک کرنا، ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہونا اور ضرورت کے وقت ان کی  مدد کرنا، ان کا حق ہے، لہذا ان سے قطع تعلقی کرنا سخت حرام اور گناہ کا کام ہے۔
صلہ رحمی کی اہمیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"لہذا تم رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، جو لوگ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ بہتر ہے، اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں"۔
(سورۃ الروم، الآية: 35 )
اور حدیث قدسی میں مروی ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں (یعنی صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم (یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے) اور صلہ رحمی کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص صلہ رحمی کرے گا، یعنی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے گا، تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص صلہ رحمی کو توڑے گا، یعنی رشتے داروں کے حقوق ادا نہیں کرے گا، تو میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا۔
(سنن ترمذی، حدیث نمبر:1907)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 1907، ط: مصطفى البابي)
عن أبي سلمة قال: اشتكى أبو الدرداء فعاده عبد الرحمن بن عوف فقال: خيرهم واوصلهم ما علمت ابا محمد فقال عبد الرحمن بن عوف: سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول: قال الله: أنا الله وأنا الرحمن، خلقت الرحم وشققت لها من إسمي فمن وصلها وصلته ومن قطعها بتته.

الھندیة: (كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، 519/1، ط: قديمي)
"اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال".

الدر المختار مع رد المحتار: (416/6، ط: دار الفكر)
وصلة الرحم واجبة ولو) كانت (بسلام وتحية وهدية) ومعاونة ومجالسة ومكالمة وتلطف واحسان ويزورهم غبا ليزيد حبا بل يزور اقرباءه كل جمعة أو شهر ولا يرد حاجتهم لأنه من القطيعة في الحديث: إن الله يصل من وصل رحمه ويقطع من قطعها.
(قوله: وصلة الرحم واجبة): نقل القرطبي في تفسيره اتفاق الأمة على وجوب صلتها وحرمة قطعها للأدلة القطعية من الكتاب والسنة على ذلك قال في تبيين المحارم: واختلفوا في الرحم التي يجب صلتها قال قوم: هي قرابة كل ذي رحم محرم وقال آخرون: كل قريب محرما كان أو غيره اه.. والثاني ظاهر إطلاق المتن، قال النووي في شرح مسلم: وهو الصواب واستدل عليه بالأحاديث. نعم تتفاوت درجاتها ففي الوالدين أشد من المحارم وفيهم أشد من بقية المحارم وفي الاحاديث إشارة الى ذلك كما بينه في تبيين المحارم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 275 Sep 23, 2021
apne sotelay rishtedaro say qata taluqi karne ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.