سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے دوست کا ایک پلاٹ ہے، جس کے بارے میں اسکی نیت کبھی بیچنے کی ہوجاتی ہے، کبھی بنانے کا سوچنا شروع کر دیتا ہے اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اپنی بیٹی کو ھبه کردے، اس صورت میں زکوٰۃ کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ آپ کی تجارت کی نیت حتمی طور پر متعین نہیں ہے، بلکہ اس میں دوسری نیتوں کا بھی احتمال ہے، لہذا اس پلاٹ پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح القدير: (178/2، ط: دار الکتب العلمیة)
ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة)؛ لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة، (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی