سوال:
حضرت ! معلوم یہ کرنا ہے کہ سوزوکی کمپنی بلا سود قسطوں میں 0% مارک اپ پر موٹر سائکل کی آفر دے رہی ہے، یعنی: ۱ موٹر سائکل کی اصل قیمت اپنی آفیشل ویب سائٹ اور اشتہارات میں 2,43,000 روپے بتاتی ہے، لیکن جب کمپنی کے اپنے شوروم یا کسی بھی منظور شدہ ڈیلر کے پاس جائیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ نقد کیش پر خریدینگے تو آپکو رجسٹریشن اور کاغذات کے ساتھ 2,33000 یعنی 10,000 روپے بائک کی اصل قیمت پر اور 7000 روپے جوکہ رجسٹریشن فیس ہے کا ڈسکاونٹ دے دینگ،. لیکن اگر آپ قسطوں پر لینگے تو آپکو بلا سود زیرو% مارک اپ یعنی اصل قیمت جوکہ 243,000 بمعہ 5000 روپے رجسٹریشن اور 2000 روپے کاغذات کے جوکہ گورنمنٹ چارجز ہیں، کے ساتھ 250,000 روپے کی دینگے اور اسہی قیمت کی دو سال یعنی 24 قسطیں بنادینگے، یعنی دو سال میں ٹوٹل 250.000 دینے ہونگے. حضرت اس طرح کی ڈیل ٹھیک ہے یا اس میں سود کا عنصر شامل ہے؟
جواب: قسطوں پر کسی چیز کی خریدوفروخت چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:
١- اس چیز کی مجموعی قیمت باہمی رضامندی سے طے کرلی جائے، چاہے یہ قیمت نقد کے مقابلے میں زیادہ ہی ہو۔
٢- قیمت کی وصولی کے لیے ماہانہ قسط کی مقدار اور تاریخ ادائیگی آپس میں مقرر کرلی جائے۔
٣- کسی قسط کی گاہک کی طرف سے وصولی میں تاخیر یا کم ادا کرنے کی صورت میں اصل قیمت میں بطور جرمانہ اضافہ کرنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو۔
ان شرائط کی پابندی کے ساتھ کسی بھی چیز کی قسطوں پر خریدوفروخت جائز ہے، ان میں سے کوئی شرط چھوٹ جائے تو یہ خریدوفروخت جائز نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسي: (13/8، ط: دار المعرفة)
"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز".
المجلة: (رقم المادة: 225)
" البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح".
بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)
" أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد".
الاشباہ و النظائر: (226/1، ط: دار الکتب العلمیہ)
کل قرض جر نفعا حرام۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی