سوال:
مفتی صاحب! عشر سے کیا مراد ہے؟ نیز اس کا نصاب کیا ہوتا ہے؟
جواب: عشر ایک دینی مالی فریضہ ہے جس میں زرعی پیداوار کا ایک مخصوص حصہ اللہ کی راہ میں دیا جاتا ہے اور یہ اسلام کے سماجی انصاف کے نظام کا حصہ ہے تاکہ دولت اور وسائل کی مساوی تقسیم ممکن ہو، اور یہ مستحقین (مستحق زکوة غرباء، مساکین، اور دیگر زکوٰۃ کے مصارف) پر خرچ کیا جاتا ہے۔
عشر کے لیے شریعت میں کوئی خاص نصاب مقرر نہیں، بلکہ پیداوار کم ہو یا زیادہ، دونوں صورتوں میں اس پر عشر لازم ہوتا ہے۔ البتہ اگر زمین بارش، نہر یا قدرتی ذرائع سے سیراب ہو رہی ہو، تو پیداوار کا دسواں حصہ (% 10) بطور عُشر ادا کیا جاتا ہے اور اگر زمین کسی مصنوعی طریقے جیسے کنویں، ٹیوب ویل یا دیگر ذرائع سے پانی فراہم کرکے سیراب کی جاتی ہو تو پیداوار کا بیسواں حصہ (%5) عُشر کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔
نیز واضح رہے کہ زرعی پیداوار میں جو اخراجات کیے جاتے ہیں، مثلاً: آب رسانی، مزدوری، کھاد وغیرہ انہیں آمدنی سے منہا کرنے سے پہلے مجموعی پیداوار میں سے عشر نکالنا ضروری ہو گا، اس کے بعد اخراجات کو منہا کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (رقم الحديث: 1572، 23/3، ط: دار الرسالة العالمیة)
وَفِي النَّبَاتِ مَا سَقَتْهُ الْأَنْهَارُ، أَوْ سَقَتِ السَّمَاءُ الْعُشْرُ، وَمَا سَقَى الْغَرْبُ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ
تحفة الفقهاء: (322/1، ط: دار الكتب العلمية)
ثمَّ النّصاب هَل هُوَ شَرط لوُجُوب الْعشْر فِيمَا هُوَ بَاقٍ من الْحُبُوب وَالثِّمَار أم لَا على قولأبي حنيفَة لَيْسَ بِشَرْط بل يجب فِي قَلِيله وَكَثِيره
وعَلى قولهمالا يجب مَا لم يكن خَمْسَة أوسق والوسق سِتُّونَ صَاعا كل صَاع ثَمَانِيَة أَرْطَال
وَالصَّحِيح مَا قالهأبو حنيفَة لقَوْله تَعَالَى {يَا أَيهَا الَّذين آمنُوا أَنْفقُوا من طَيّبَات مَا كسبتم وَمِمَّا أخرجنَا لكم من الأَرْض} وَلما رُوِيَ عَن النَّبِي عليه السلام أَنه قَالَ فِيمَا سقته السَّمَاء الْعشْر وَفِيمَا سقِِي بغرب أَو دالية نصف الْعشْر
وَأما بَيَان الْمحل الَّذِي يجب فِيهِ الْعشْر وَمَا يجب فِيهِ نصف الْعشْر فَنَقُول مَا سقِِي بِمَاء السَّمَاء والأنهار والعيون العشرية يجب فِيهِ الْعشْر وَمَا سقِِي بغرب أَو دالية أَو سانية يجب فِيهِ نصف الْعشْر لما روينَا من الحَدِيث
فتح باب العناية بشرح النقاية: (523/1، ط: دار الأرقم)
بِلَا رَفْعِ مُؤَنِ الزَّرْعِ يعني لا يَحْسُبُ ربُّ المال أُجْرَةَ العمال، ونفقة البقر، وكَرْي النهر، وغير ذلك مما يحتاج إِليه في الزرع فيرفعها، ثُم يخرج من الباقي العشر أَوْ نِصْفَه لإِطلاق ما تلونا من الآية، وعموم ما روينا من الحديث. ولأَنه عليه الصلاة والسلام حَكَم بتفاوتِ الواجب لتفاوت المُؤن، فلا معنى لرفعها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی