سوال:
مفتی صاحب ! کیا ناجائز آمدنی سے قربانی اور عمرہ کیا جا سکتا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک مال کے سوا کوئی مال قبول نہیں فرماتا، اس لیے حرام مال سے عبادت کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر اس سے کوئی عبادت کی گئی تو وہ عبادت قبول نہیں ہوگی اور نہ ہی اس پر ثواب ملے گا، بلکہ اس حرام مال کا حکم یہ ہے کہ اگر مالک معلوم ہو تو اس کو واپس کردیا جائے، اور اگر مالک معلوم نہ ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر سارا مال صدقہ کردیا جائے۔
لہذا ناجائز آمدنی سے قربانی اور عمرہ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر ایسا شخص کسی سے حلال رقم قرض کے طور پر حاصل کرےاور اس سے قربانی یا عمرہ کرے تو وہ رقم چونکہ حلال ہے٬ اس لیے اس سے قربانی اور عمرہ کرنا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2346، 703/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
و حَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ
رد المحتار: (مطلب في من ورث مالًا حرامًا، 99/5، ط: دارالفکر)
و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب ردّه عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحلّ له ويتصدّق به بنية صاحبه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی