سوال:
السلام علیکم، میں نے 10 سال پہلے ایک کام پھول بیچنے کا تھا، کسی کو 30 ہزار دیے، اس نے کہا کہ میں آپ کو 6 مہینے بعد 15 ہزار دونگا، میں نے کہا کہ یہ سود ہو جائے گا، وہ بولا کہ باجی کسی مہینے کام چلتا ہے اور کسی مہنے نہی، میں ان کو برابر کردونگا، 10 سال سے میں جب وہ پیسے دیتا ہے، یہی بات کرتی ہوں کہ تم نفع زیادہ دیتے ہو، کہیں یہ سود نہ ہو، وہ یہی بولتا ہے کہ سود نہیں ہے۔
ہر مہینے انکم نہیں ہوتی ، کبھی ہوجاتی ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتی، اس لیے میں آپ کو 15 ہزار 6 مہینے کا دیتا ہوں، اب آپ مجھے بتائیں کہ ہمارا یہ کام شرعی اعتبار سے صحیح ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ معاملہ کی صورت شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ مذکورہ معاملہ میں چھ مہینے کے بعد متعین نفع (پندرہ ہزار) طے کیا گیا ہے، جبکہ شراکت داری میں ضروری ہے کہ نفع فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے اور بعد میں حاصل شدہ نفع فیصد ہی کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے، لہذا اس معاملے کو ختم کرکے آئندہ کے لیے نفع باہمی رضامندی سے فیصد کے اعتبار سے طے کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف عبد الرزاق: (باب نفقۃ المضارب، رقم الحدیث: 15087، ط: المجلس العلمی، الھند)
عن علي في المضاربة: «الوضيعة على المال، والربح على ما اصطلحوا عليه» وأما الثوري فذكره، عن أبي حصين، عن علي في المضاربة، أو الشركين.
الفتاوی الھندیۃ: (الفصل الثانی فی شرط الربح و الوضیعۃ، 320/2، ط: دار الفکر)
وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی