سوال:
مفتی صاحب ! اگر کوئی شخص کسی دوست یا رشتہ دار کا کوئی کام کرے، مثلاً: درزی سے کپڑے سلوا کر دے یا کوئی سامان خرید کر دے، یا کوئی چیز فروخت کرے، جس کا سامان ہے، اس کو بتائے بغیر کچھ پیسے رکھ لے، اور اس کو کم پیسے دے، کیا اس شخص کے لیے یہ اضافی پیسے رکھنا جائز ہوگا؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اس شخص کی حیثیت وکیل کی ہے اور وکیل شرعاً امین (امانت دار) ہوتا ہے، لہذا وکیل کے لیے مؤکل کی اجازت کے بغیر بقیہ رقم میں سے اپنے لیے کچھ رقم رکھنا جائز نہیں ہے، بلکہ بقیہ پوری رقم واپس کرنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ اگر وکیل اپنی محنت کی اجرت لینا چاہتا ہو، تو معاملہ کو صاف رکھتے ہوئے شروع میں ہی اس کام کی اجرت طے کرلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 188)
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَo
مجلۃ الاحکام العدلیۃ: (الباب الثالث فی بیان احکام الوکالۃ، 445/4، ط: مکتبۃ رشیدیۃ)
(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة).
شرح مجلۃ الاحکام العدلیۃ: (الباب الاول فی رکن الوکالۃ و تقسیمھا، 404/4، ط: مکتبۃ رشیدیۃ)
اعلم ان الوکالۃ من العقود الجائزۃ الغیر اللازمۃ حتی ملک کل واحد من الوکیل والموکل العزل بدون صاحبہ۔ والوکیل امین فیما فی یدہ کالمودع فیضمن بما یضمن بہ المودع ویبرأ بہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی