سوال:
شادی کی پہلی رات کیا کیا چیزیں فرض اور سنت ہیں؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: شادی کی پہلی رات کے کئی آداب ذکر کیے گئے ہیں، ان میں سے چند ایک اختصار کے ساتھ ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
1) جب شوہر بیوی کے پاس جائے، تو محبت بھرے لہجے میں سلام کرے، اور کچھ دیر اس کو مانوس کرنے کے لیے بات کرے، اور آداب وغیرہ بتائے، پھر اسے بتانے کے بعد اس کی پیشانی کے بالوں پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھے:
"اللهم إني أسالُك خَيْرَها، وخَيْرَ ما جَبَلْتَها عليه، وأعوذُ بِكَ من شَرِّها، وشَرِّ ما جبلتَها عليه."
ترجمہ:"اے اللہ! میں آپ سے اس خاتون کی اور اس کے مزاج اور طبیعت کی بھلائی مانگتا ہوں، اور اس کے اور اس کے مزاج اور طبیعت کے شر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں“۔
2) اس کے بعد وضو کرکے بہتر ہے کہ دونوں مياں بیوی ایک ساتھ دورکعت نماز شکرانہ کی اس طرح پڑھیں کہ مرد آگے کھڑا ہو اور عورت پیچھے، نماز کے بعد خیر و برکت، باہمی محبت و مودت، اتفاق و اتحاد، اور آپس میں مزاج کے ہم آہنگ ہونے کی دعا کریں، مزید یہ عربی دعا بھی پڑھ لیں، تو بہتر ہے:
"اللهم بارك لي في أهلي، وبارك لأهلي فيَّ، اللهم ارزقني منهم، وارزقهم مني، اللهم اجمع بيننا إذا جمعت في خير، وفرق بيننا إذا فرقت إلى خير."
ترجمہ:"اے الله میرے لیے میرے گھر والی میں برکت عطا فرما، اور میرے گھر والی کے لیے مجھ میں برکت عطا فرما، اے اللہ اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے روزی عطا فرما، اے اللہ جب آپ ہمیں جمع کریں تو خیر کے ساتھ جمع کریں، اور جب الگ فرمائیں تو خیر کے ساتھ الگ فرمائیں۔"
3) پہلی رات ملاقات کے وقت شوہر کو چاہیے کہ ابتدا میں بیوی کو اپنے ساتھ مانوس کرے، اپنی باتوں کے ساتھ اجنبیت کو ختم کرنے کی کوشش کرے، عورت پر اپنا رعب جمانے اور دبدبہ بٹھانے کی کوشش نہ کرے، اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عزت اور نرمی کے ساتھ پیش آئے کہ بیوی کو قلبی سکون حاصل ہو، اس کے دلی بوجھ میں کمی واقع ہو۔
4) بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلی رات ہی مباشرت کرنا ضروری ہے، یہ بات درست نہیں ہے، تاہم اگر مباشرت کرنے کا ارادہ ہو، تو اس سے پہلے عورت کو مکمل طور پر مانوس کرے، بوس و کنار اور ملاعبت کے ذریعے اسے تیار بھی کرے، اور اس بات کا ہر صحبت کے وقت پورا خیال رکھے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ غنیۃ الطالبین (1/ 104)میں لکھتے ہیں: "ويستحب له الملاعبة لها قبل الجماع، والانتظار لها بعد قضاء حاجته، حتى تقضي حاجتها، فإن في ترك ذلك مضرة عليها، ربما أفضى إلى البغضاء والمفارقة".
جس کا مفہوم یہ ہے کہ صحبت سے پہلے عورت سے ملاعبت کرکے اسے تیار کرے، اور اپنی خواہش پوری ہوجانے کے بعد لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فورا ہی عورت سے الگ نہ ہوجائے، بلکہ عورت کی خواہش پوری ہونے تک انتظار کرے، ورنہ عورت كو مكمل تسلی نہیں ہوتی، اور یہ چیز بعد میں نفرت، کدورت، اور جدائی کا سبب بن سکتی ہے۔
صحبت کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ ایسے وقت میں قبلہ کی طرف منہ نہ کرے، پردے کی حتیٰ الامکان رعایت کرے، بلکل برہنہ ہوجانا مناسب نہیں ہے، کسی اجنبی یہانتکہ کسی چھوٹے بچے کی نظر پڑنے کا بھی اندیشہ نہ ہو، صحبت کے وقت بسم اللہ پڑھ کر یہ دعا پڑھے: "اللهم جَنِّبنا الشيطانَ وجنِّبِ الشيطانِ ما رزقتَنَا" دعاؤں کا اہتمام نہ کرنے سے شیطان صحبت میں شریک ہوجاتا ہے، اور بچہ پر بھی شیطانی اثرات پڑتے ہیں، صحبت کے بعد کوشش کرے کہ غسل یا کم از کم استنجاء اور وضو کرکے سوئے۔
اور یہ بھی آداب میں سے ہے کہ میاں بیوی کی آپس کی جو پوشیدہ اور راز کی باتیں ہوں، کسی سے ان کا تذکرہ نہ کریں، نہ مرد نہ عورت، یہ بے حیائی اور بے شرمی کی بات ہے۔
(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتاویٰ رحیمیہ (8/244تا 248) اور کتاب آدابِ مباشرت مصنفہ جناب ڈاکٹر آفتاب صاحب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحدیث: 2160، ط: دار ابن حزم)
«عن عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جدِّه، عن النبيّ - صلَّى الله عليه وسلم-قال: "إذا تزوج أحدُكُم امرأةً أو اشْتَرى خادماً، فلْيَقُلْ: اللهم إني أسالُك خَيْرَها، وخَيْرَ ما جَبَلْتَها عليه، وأعوذُ بِكَ من شَرِّها، وشَرِّ ما جبلتَها عليه، وإذا اشْتَرَى بعيراً فليأخُذْ بِذُرْوةَ سَنامِهِ، وليقل مِثْلَ ذلك".
صحيح البخاري: (باب التسمية على كل حال و عند الوقاع، رقم الحدیث: 141، ط: دار طوق النجاۃ)
عن ابن عباس، يبلغ النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لو أن أحدكم إذا أتى أهله قال: باسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا، فقضي بينهما ولد لم يضره»
صحيح البخاري: (باب الجنب يتوضأ ثم ينام، رقم الحدیث: 288,290، ط: دار طوق النجاۃ)
عن عائشة قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن ينام وهو جنب، غسل فرجه وتوضأ للصلاة»عن عبد الله بن عمر أنه قال: «ذكر عمر بن الخطاب لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه تصيبه الجنابة من الليل، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: توضأ واغسل ذكرك، ثم نم».
صحيح مسلم: (باب تحريم إفشاء سر المرأة، رقم الحدیث: 1437، 1060/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
عبد الرحمن بن سعد، قال: سمعت أبا سعيد الخدري، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن من أشر الناس عند الله منزلة يوم القيامة، الرجل يفضي إلى امرأته، وتفضي إليه، ثم ينشر سرها»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی