resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: والدین کا اپنی بیٹی کا بے جوڑ لڑکے سے رشتہ کرنا، نیز کیا نیک عورتوں کو نیک مرد ملنا قاعدہ کلیہ ہے؟ (33470-No)

سوال: مفتی صاحب! میری ایک18 سال کی دوست ہے اور پری میڈیکل میں پڑھ رہی ہے۔، وہ پانچ وقت کی نمازی، پاکیزہ اور عملی مسلم لڑکی ہے، وہ اسلام کو بہت مضبوطی سے فالو کرتی ہے، یہاں تک کہ ہم کبھی کبھی اسے مزاح میں “کٹر مسلم” بھی کہہ دیتے ہیں، وہ ہر چیز میں اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپناتی ہے اور اپنے میل کزنز سے بھی ضرورت کے بغیر بات نہیں کرتی۔
اس کا رشتہ بچپن میں اس کے کزن سے طے کیا گیا تھا، لیکن وہ لڑکا ٹھیک نہیں ہے، گھر والوں نے اسے ایک لڑکی کے ساتھ پکڑ بھی لیا تھا، وہ بہت بُرا انسان ہے، میں کیسے بیان کروں، وہ واقعی بہت خراب کردار کا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ میری دوست گھر والوں کو یہ نہیں بتا سکتی کہ وہ اس لڑکے سے نکاح نہیں کرے گی، اس کا ایمان بھی اسے اجازت نہیں دیتا، لیکن اس کا یہ یقین ہے کہ اس کا رشتہ ٹوٹے گا نہیں اور اسی لڑکے سے اس کا نکاح ہوگا۔
وہ بار بار مجھ سے پوچھتی ہے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ "نیک عورتوں کے لیے نیک مرد ہیں" تو پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہے؟ اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ براہ کرم! آپ رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
https://alikhlasonline.com/detail.aspx?id=7923

جواب: واضح رہے کہ والدین کو اپنے بچے اور بچیوں کا رشتہ ایسی جگہ کرنا چاہیے جو ان کے جوڑ کا ہو، اور جو دونوں (والدین اور بچے بچی) کے لیے عار کا باعث نہ ہو، لہذا آپ کی سہیلی کے گھر والوں کو چاہیے کہ اگر لڑکا واقعی برے کاموں میں ملوّث ہے اور اس نے ان غلط کاموں سے توبہ نہیں کی ہے یا آئندہ بھی اس کے صحیح ہونے کی توقّع نہیں ہے تو ایسے لڑکے کے ساتھ اپنی پاکدامن لڑکی کا رشتہ نہ کریں، کیونکہ اس سے نکاح کے بعد میاں بیوی کے درمیان الفت و محبت پیدا نہیں ہوسکے گی، بلکہ ایک دوسرے سے متعلق نفرت ہی رہے گی جو آگے چل کر لڑائی جھگڑے، ناچاقی اور طلاق کا باعث بن سکتی ہے۔
جہاں تک آپ کی سہیلی کے اشکال کی بات ہے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ "نیک عورتوں کے لیے نیک مرد ہیں" تو پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہے؟ تو واضح رہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے، بلکہ ایک عام ضابطہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی طبیعتوں میں طبعی طور پر یہ جوڑ رکھا ہے کہ بدکار عورتیں بدکار مردوں کی طرف رغبت اور میلان رکھتی ہیں، اور بدکار مرد بدکار عورتوں کو پسند کرتے ہیں، اسی طرح پاکیزہ مرد اور پاکیزہ عورتوں کی طبیعت پاکیزہ مرد اور پاکیزہ عورتوں کی طرف ہی مائل ہوتی ہے، وہ کبھی بھی کسی بدکار عورت یا مرد کو اپنا شریک حیات نہیں چنتے۔
چنانچہ تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ صاحبؒ اس آیت کی تشریح میں رقمطراز ہیں:
"اور (یہ قاعدہ عام ہے کہ) گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق۔
اکثر اہل تفسیر کے نزدیک الخبیثات سے مراد ہیں گندی باتیں، مذمت، تحقیر اور توہین کرنے والے ناپاک الفاظ ایسے الفاظ وکلمات گندے لوگوں کے لیے ہی زیبا ہیں ناپاک لوگوں کو ہی ایسی بری باتوں کا استحقاق ہے اور خبیث لوگ ہی مذمت و تحقیر وغیرہ کے اہل ہیں اور پاک کلمات یعنی تعریف، ثناء اور دعا کے مستحق پاک لوگ ہیں اور پاک کلمات انہی کے لیے زیبا ہیں۔" (تفسیر مظہری: سورۃ النور، الآیة:212/8 ،26، ط:دار الاشاعت)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مرقاة المفاتيح: (2053/5،‌‌ كتاب النكاح،‌‌ باب النظر، ط:دار الفكر،بيروت)
"والتحصين المطلوب بالنكاح لا يحصل إلا بالرغبة في المنكوحة."

تفسير القرطبي (12/140، ط: دار الکتب العلمیة)
قال ابن زيد: المعنى الخبيثات من النساء للخبيثين من الرجال، وكذا الخبيثون للخبيثات، وكذا الطيبات للطيبين والطيبون للطيبات. وقال مجاهد وابن جبير وعطاء وأكثر المفسرين: المعنى الكلمات الخبيثات من القول للخبيثين من الرجال، وكذا الخبيثون من الناس للخبيثات من القول، وكذا الكلمات الطيبات من القول للطيبين من الناس، والطيبون من الناس للطيبات من القول . قال النحاس في كتاب معاني القرآن: وهذا من أحسن ما قيل في هذه الآية. ودل على صحة هذا القول" أولئك مبرؤن مما يقولون" أي عائشة وصفوان مما يقول الخبيثون والخبيثات. وقيل: إن هذه الآية مبنية على قوله:" الزاني لا ينكح إلا زانية أو مشركة" [النور: 3] الآية، فالخبيثات الزواني، والطيبات العفائف، وكذا الطيبون والطيبات. واختار هذا القول النحاس أيضا، وهو معنى قول ابن زيد. (أولئك مبرؤن مما يقولون) يعني به الجنس.

التفسير المنير - الزحيلي (18/ 195، 198، ط: دار الفکر)
{الخبيثات للخبيثين، والخبيثون للخبيثات، والطيبات للطيبين، والطيبون للطيبات.}. أي النساء الزواني الخبيثات للخبيثين من الرجال، والخبيثون الزناة من الرجال للخبيثات من النساء؛ لأن اللائق بكل واحد ما يشابهه في الأقوال والأفعال، ولأن التشابه في الأخلاق والتجانس في الطبائع من مقومات الألفة ودوام العشرة. وذلك كقوله تعالى: {الزاني لا ينكح إلا زانية أو مشركة، والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك} [النور 3/ 24].
وعلى هذا يكون المراد بالخبيثات والطيبات النساء، أي شأن الخبائث يتزوجن الخباث، أي الخبائث، وشأن أهل الطيب يتزوجن الطيبات.
ويجوز أن يكون المراد من الخبيثات الكلمات التي هي القذف الواقع من أهل الإفك، والمعنى: الخبيثات من قول أهل الإفك للخبيثين من الرجال، وبالعكس: والطيبات من قول منكري الإفك للطيبين من الرجال وبالعكس ...النساء الخبيثات للخبيثين من الرجال، وكذا الخبيثون للخبيثات، وكذا الطيبات للطيبين والطيبون للطيبات. وهذا ما اختاره النحاس، وهو الظاهر. وقال مجاهد وابن جبير وعطاء وأكثر المفسرين: الكلمات الخبيثات من القول للخبيثين من الرجال، وكذا الخبيثون من الناس للخبيثات من القول، وكذا الكلمات الطيبات من القول للطيبين من الناس، والطيبون من الناس للطيبات من القول.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation of Quranic Ayaat