سوال:
السلام علیکم، ہماری پراپرٹی مشترکہ اور کمرشل ہے اورکرائے پردی ہوئی ہے، مناسب کرایہ ملتا ہے، الحمدللّٰه ! ہم تین بھائی ہیں، ایک بھائی بینک کی نوکری کرتا ہے، دوسرا پرائیوٹ نوکری کرتا ہے، بینک والا بھائی بضد ہے کہ جگہ بینک کوکرائے پردی جائے، بینک کو کرائے پر دینے سے آمدنی حلال ہوگی یا حرام؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔
جواب: سود حرام اور گناہ کبیرہ ہے، سودی معاملات کو قرآن کریم میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے، لہذا جو بینک سودی معاملات کرتے ہوں، ان کو اپنی جائیداد کرایہ پر دینا، گویا گناہ کے کام میں معاون اور سبب بننا ہے، اس وجہ سے سودی بینک کو کرائے پر جگہ دینا جائز نہیں ہے۔
البتہ غیر سودی بینک چونکہ سودی معاملات میں ملوث نہیں ہوتے، بلکہ ان کے معاملات مرابحہ، مضاربہ، مشارکہ اور اجارہ کے شرعی اصولوں کے تحت مستند مفتیان کرام کی زیرِ نگرانی چل رہے ہوتے ہیں، اس لیے ان کو کرایہ پر جگہ دینا شرعاً جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ: الایۃ: 2)
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ....الخ
فقہ البیوع: (186/1، ط: مکتبۃ معارف القرآن)
"وان لم یکن محرکا و داعیا، بل موصلا محضا، وھو مع ذلک سبب قریب بحیث لا یحتاج فی اقامۃ المعصیۃ بہ الی احداث صنعۃ من الفاعل، کبیع السلاح من اھل الفتنۃ، وبیع الامرد ممن یعصی بہ واجارۃ البیت ممن یبیع فیہ الخمر او یتخذہ کنیسۃ او بیت نار وامثالھا فکلہ مکروہ تحریما بشرط ان یعلم بہ البائع والمؤجر، من دون تصریح بہ باللسان، فانہ ان لم یعلم کان معذورا وان علم و صرح کان داخلا فی الاعانۃ المحرمۃ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی